سیاسیات
ہلال بخاری
زوہران ممدانی نے نیویارک کے میئر کے انتخاب میں تاریخی کامیابی حاصل کر کے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ وہ امریکہ کے پہلے مسلمان مہاجر ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ خود کو ایک ’’سوشلسٹ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کی یہ کامیابی امریکی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم ان کے مخالفین، خاص طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اُنہیں ’’کمیونسٹ‘‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اپنی ایک تقریر میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کا میئر اب ایک کمیونسٹ بن چکا ہے‘‘۔ ان کے اس بیان نے میڈیا میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اسے ممدانی کے خلاف ایک سیاسی حربہ قرار دیا تاکہ عوامی سطح پر ان کی ساکھ کو متاثر کیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سوشلسٹ اور کمیونسٹ میں فرق کیا ہے؟
سادہ الفاظ میں کہا جائے تو سوشلسٹ وہ شخص ہے جو دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا حامی ہوتا ہے، مگر وہ جمہوری نظام اور انفرادی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ سرمایہ داری کے نظام کو ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر اور زیادہ منصفانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف کمیونزم ایک ایسا نظریہ ہے جو مکمل طور پر طبقاتی نظام کو مٹانے اور نجی ملکیت کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ کمیونزم انقلاب اور سخت نظریاتی اقدامات کے ذریعے سماجی تبدیلی لانے پر یقین رکھتا ہے، جب کہ سوشلسٹ اصلاحات کے راستے پر یقین رکھتے ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ سوشلسٹ ایک معتدل نظریاتی سوچ رکھتا ہے، جب کہ کمیونسٹ ایک انتہاپسند سوشلسٹ ہوتا ہے۔ زوہران ممدانی کی پوری انتخابی مہم میں کسی بھی قسم کی انتہاپسندی یا انتقام کی سوچ نظر نہیں آئی۔ انہوں نے ہمیشہ شمولیت، برابری، تعلیم، صحت اور عوامی فلاح جیسے موضوعات پر بات کی۔ ان کی تقریریں اور منشور ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جہاں ہر شہری کو مواقع میسر ہوں — نہ کہ ایسا نظام جہاں ریاست سب کچھ کنٹرول کرے۔
دوسری جانب ڈونالڈ ٹرمپ جنہیں کئی ماہرین ایک دائیں بازو کے عوامی جذبات کو اُبھارنے والا سیاست دان کہتے ہیں، ممدانی کو کمیونسٹ قرار دے کر دراصل اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی سیاست میں ’’کمیونسٹ‘‘ کا لفظ اکثر ایک منفی استعارہ سمجھا جاتا ہے اور ٹرمپ اس خوف کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کی حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔
ممدانی کا سیاسی نظریہ دراصل مساوات اور انصاف پر مبنی ہے، وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے جمہوری طریقے اپنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے منصوبے عوامی فلاح، سستی رہائش، بہتر تعلیم اور سب کے لیے صحت کی سہولتوں جیسے بنیادی مسائل پر مرکوز ہیں۔ ان کی سوچ انقلابی نہیں بلکہ اصلاحی ہے، جو امریکی جمہوریت کے دائرے میں رہ کر تبدیلی لانے کی خواہش رکھتی ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زوہران ممدانی کو ’’کمیونسٹ‘‘ کہنا محض ایک سیاسی حربہ ہے، حقیقت میں وہ ایک سوشلسٹ ہیں جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ کی جمہوریت اب زیادہ متنوع اور وسیع النظر ہو چکی ہے۔
زوہران ممدانی کا انتخاب اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ حب الوطنی، ایمان اور سوشلزم ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔ ان کی جیت دراصل اس امریکہ کی جیت ہے جہاں ایک مسلمان مہاجر، اپنی محنت، علم اور خلوص کے ساتھ سب سے بڑے شہر کا میئر بن سکتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب نظریاتی انتہاپسندی نہیں بلکہ فکر، برداشت اور شمولیت ہی امریکی سیاست کا نیا چہرہ ہے۔