طارق حمیدشاہ ندوی
جموں و کشمیر، خاص طور پر وادی کشمیر میں سرکاری اسکولوں کی تعلیمی اور انتظامی حالت گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل زوال پذیر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف گورنمنٹ ملازمین اور خوشحال طبقہ بلکہ خود گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ عوام کا اعتماد سرکاری اسکولوں سے تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کی محنت:
پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ نہ صرف کلاس روم میں بچوں کی تعلیم اور اخلاقی تربیت سنبھالتے ہیں بلکہ اسکول کی انتظامی سرگرمیوں، امتحانات، رپورٹ کارڈ اور والدین سے رابطہ بھی خود دیکھتے ہیں۔ ٹیچر بننا بظاہر آسان پیشہ لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ مسلسل محنت، صبر اور قربانی کا عمل ہے۔ اکثر اساتذہ دن میں 8–10 گھنٹے اسکول میں گزارنے کے بعد اضافی وقت گھر یا آن لائن طلبہ کی رہنمائی میں صرف کرتے ہیں۔
مالی پہلو اور آمدنی : اکثر ہنر مند اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ ₹18,000 – ₹22,000 ہوتی ہے، جبکہ اسکول کی آمدنی کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر:
طلبہ کی تعداد 2100،ماہانہ فیس: تقریباً ₹3000روپے،سالانہ چارجز: تقریباً ₹6000روپے۔ان اعداد و شمار کے مطابق اسکول کی مجموعی ماہانہ آمدنی تقریباً ₹63 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ سالانہ آمدنی مزید بڑھتی ہے۔
تنخواہ اور مالی تحفظ میں تضاد: پی ایف کٹوتی اکثر معمولی یا کاغذی طور پر دکھائی جاتی ہے، جس سے استاد کا مستقبل کا مالی تحفظ محدود رہتا ہے۔اساتذہ کی کم تنخواہ اور محدود مالی فوائد، کام کے معیار اور حوصلے پر برا اثر ڈال سکتے ہیں۔اسکول مالکان اکثر یہ جواز دیتے ہیں کہ فیس کم ہے، یا طلبہ کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ تنخواہیں بڑھائی جا سکیں، حالانکہ اصل آمدنی اس سے کہیں زیادہ ہے۔
تعلیمی اور سماجی اثرات: کم حوصلہ مند اساتذہ طلبہ کی تعلیم اور اخلاقی تربیت پر مؤثر طریقے سے توجہ نہیں دے پاتے۔مطمئن اساتذہ بہتر تدریس اور طلبہ کی تعلیمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔اگر استاد کی محنت اور قربانی کی قدر نہ کی جائے تو تعلیمی معیار میں کمی، اخلاقی تربیت کی کمی، اور طلبہ میں بے حوصلگی پیدا ہو سکتی ہے۔
نتیجہ اور سفارشات: پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ صرف ملازم نہیں بلکہ قوم کے معمار ہیں۔ ان کی محنت کو مناسب مالی اعزاز، مضبوط پی ایف فوائد، اور معاشرتی عزت کے ساتھ تسلیم کرنا ضروری ہے۔
تجویز: (۱) اسکول مالکان تنخواہوں میں اضافہ کریں اور پی ایف کٹوتی کا حقیقی فائدہ یقینی بنائیں۔(۲) حکومتی ادارے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے تنخواہ اور مالی فوائد کے معیارات مقرر کریں۔(۳) اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور معیارِ تدریس کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ تربیت اور ورکشاپس کروائی جائیں۔
اگر ہم نے ان کی قدر نہ کی تو آنے والی نسلوں کا علمی، اخلاقی اور سماجی مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ قوموں کی ترقی کا راز مضبوط نظامِ تعلیم اور مطمئن اساتذہ میں پوشیدہ ہے — اور یہی وہ بنیاد ہے جسے ہمیں دوبارہ مضبوط کرنا ہوگا۔