جرسِ ہمالہ
میر شوکت
اکتوبر کا آخری ہفتہ تھا۔ کشمیر کی وادی میں وہ موسم اُتر آیا تھا جو انسان کے ضمیر کو بھی کمبل اوڑھا دیتا ہے۔ آسمان کی نیلگوں گہرائی پر سورج یوں جھانک رہا تھا جیسے کسی سنجیدہ افسر نے استعفیٰ دینے سے پہلے آخری حاضری لگائی ہو۔ ہوا میں برف کی خنکی اور سیاست کی گرمی گھل کر ایسا مرکب بن گئی تھی جسے کوئی ماہرِ کیمیا بھی تحلیل نہ کر سکے۔ چنار کے درختوں نے اپنا خونی لباس پہن رکھا تھا، جیسے فطرت نے جمہوریت کے زخموں کو رنگ میں ڈبو دیا ہو۔
اسی منظر میں اسمبلی کی عمارت دمک رہی تھی، اخروٹ اور چنار کی لکڑی سے سجی دیواروں میں وہی پرانے نعرے، وہی وعدے، اور وہی الفاظ جو ہر انتخاب میں دوبارہ وضو کر کے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آج راجیہ سبھا کے انتخابات تھے، مگر فضا میں ووٹ کی خوشبو کم، لفافوں کی مہک زیادہ تھی۔ سیاست کی ہوا اس قدر تیز چل رہی تھی کہ چنار کے پتے بھی سوچ میں پڑ گئے کہ گرنا بہتر ہے یا بک جانا۔
اسمبلی ہال کے باہر سرخ قالین بچھے تھے، اتنے سرخ کہ کوئی نادان انہیں حب الوطنی کے خون سے رنگا ہوا سمجھ لیتا۔ اندر داخل ہونے والے معزز ارکان کے چہرے اس طرح دمک رہے تھے جیسے سب نے صبح ضمیر پر فیس کریم لگائی ہو۔ ہر رکن نے اپنی جیب میں’’فاداری ‘‘تہہ کر کے رکھی تھی، جیسے پرانے بجلی کے بل جنہیں اب فائل سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ چائے کے کپوں سے اٹھتی بھاپ میں ایک عجیب سا اضطراب تھا۔ ہر کپ میں ضمیر کا عکس دکھائی دیتا۔ ٹھنڈا، مگر ابال کھاتا ہوا۔
چار سیٹوں کے لیے مقابلہ تھا، مگر لگتا تھا جیسے قیامت کی چار trumpets بجنے والی ہوں۔ نیشنل کانفرنس کے خیمے میں گلاب کی خوشبو تھی، بی جے پی کے خیمے میں کیلکولیٹر۔ عوام حسبِ روایت باہر تماشائی بنے بیٹھے تھے، جیسے میچ دیکھنے آئے ہوں جس کا نتیجہ پہلے سے طے ہے، بس کھیل کی اداکاری باقی ہے۔
جب ووٹنگ شروع ہوئی تو فضا میں عجب سا تقدس پھیل گیا۔ کچھ ارکان نے ووٹ ڈالتے وقت ’’بسم اللہ‘‘پڑھی، کچھ نے موبائل بند کیا کہ ضمیر کی آواز باہر نہ نکل جائے۔ ایک صاحب نے بیلٹ باکس میں پرچی ڈال کر ایسے جھانکا جیسے کسی عزیز کی قبر پر پھول رکھ رہا ہو۔ ان کے لبوں پر دعا تھی مگر آنکھوں میں خوف، کہیں پرچی غلط خانے میں نہ چلی جائے۔
اسمبلی کے در و دیوار آج گونگے تھے، مگر ہوا بول رہی تھی۔ باہر چنار کی شاخوں سے سرسراہٹ اٹھی، جیسے فطرت سوال پوچھ رہی ہو:’’کیا ضمیر بھی آج ووٹ ڈالنے آیا ہے؟‘‘
ایک افسر نے دوسرے سے سرگوشی کی: ’’صاحب، آج کا دن تاریخ میں لکھا جائے گا!‘‘
دوسرا بولا: ’’جی، مگر کس صفحے پر۔ طنز کے یا تماشے کے؟‘‘
گنتی شروع ہوئی تو خاموشی چھا گئی۔ ہر بیلٹ باکس کھلنے پر ایک نئی کہانی جنم لیتی، جیسے تاریخ اپنی تقدیر خود لکھ رہی ہو۔ جب اعلان ہوا کہ نیشنل کانفرنس نے تین سیٹیں جیت لی ہیں اور بی جے پی نے ایک، تو تالیاں بجیں۔ مگر وہ تالیاں ویسی تھیں جیسے کسی جنازے کے بعد فاتحہ کے وقت ہلکی مسکراہٹ آ جائے
اصل کہانی وہ ’’ایک‘‘سیٹ تھی، جو 28ووٹوں سے بڑھ کر 32پر جا پہنچی۔ چار ووٹ، جو نہ آسمان سے اترے، نہ زمین سے نکلے۔ یہ ووٹ شاید اس’’علاقے‘‘سے آئے تھے جہاں ضمیر چھٹیاں گزارنے جاتا ہے۔ ایک سینئر صحافی نے قہوہ کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا:’’یہ چار ووٹ نہیں، چار مکاشفے ہیں، ہر ووٹ ایک خواب کی موت کی علامت!‘‘
دہلی کے تجزیہ کاروں نے فوراً اعلان کیا:’’یہ جمہوریت کی جیت ہے!‘‘
سری نگر کے ہوٹلوں میں بیٹھے بوڑھوں نے اخبار بند کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ضمیر کی نیند کی طوالت ہے، صاحب!‘‘
ایک چائے والے نے تبصرہ کیا: ’’یہ الیکشن نہیں، نیلامی کا جشن ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ یہاں بولی لگانے والے بھی ووٹ دیتے ہیں‘‘۔
کسی نے کہا’’یہ ضمیر کی بیداری ہے‘‘۔
دوسرے نے جواب دیا ’’نہیں، بیداری نہیں، جاگ کر سونا ہے‘‘۔
ایک ہنستے ہوئے بولا’’کاش ضمیر کے لیے بھی الیکشن کمیشن ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین بناتا، جہاں غلطی کی گنجائش کم ہو!‘‘
اخبارات کے اداریوں نے اگلی صبح شہ سرخیاں لگائیں:’’جمہوریت جیت گئی!‘‘
مگر نیچے چھوٹے حروف میں لکھا تھا:’’ضمیر نے شرکت نہیں کی، وہ ابھی بھی گم شدہ ہے۔‘‘
اسمبلی کے باہر ہوا مزید سرد ہو چکی تھی۔ چنار کے پتوں نے زمین پر ایک سرخ قالین بچھا دیا تھا، جیسے فطرت خود اس کھیل کا حصہ بن گئی ہو۔ ایک پتّا ہوا میں گھومتا ہوا زمین پر گرا اور آہستہ سے بولا:’’میں زرد ہو کر گرا، تم تو سبز رہ کر بکے!‘‘۔
شام کے وقت ڈل جھیل پر خاموشی چھا گئی۔ پانی اتنا پرسکون تھا کہ جیسے خود فطرت نے سانس روک رکھی ہو۔ کنارے پر ایک کشتی والا بولا:
’’صاحب، یہاں برف ہر سال گرتی ہے، مگر ضمیر کبھی نہیں پگھلتا‘‘۔
دوسرا کشتی بان بولا:’’ضمیر اب ڈل جھیل کی طرح ہو گیا ہے — خوبصورت، مگر گہرا نہیں‘‘۔
رات کے اندھیرے میں اسمبلی کی روشنی بجھ گئی، مگر دیواروں پر آج کے دن کی بازگشت باقی تھی: ’’کراس ووٹنگ مبارک ہو!‘‘
وہ بازگشت اتنی طنزیہ تھی کہ خود برف بھی پگھلنے سے پہلے ٹھٹک گئی۔
سری نگر کے اخبارات میں اگلے دن تجزیے چھپے ۔کسی نے اسے ’’جمہوریت کی شفافیت‘‘ کہا،کسی نے ’’سیاست کی صفائی‘‘،اور ایک نوجوان صحافی نے لکھا:’’یہ شفافیت ویسی ہے جیسے برف کی اوپری تہہ — سفید ضرور، مگر نیچے گدلاپانی بہتا ہے‘‘۔
عوام کے لیے یہ ایک عام دن بن گیا۔ بازار کھل گئے، چائے خانے آباد ہو گئے، اور گفتگو وہی پرانی’’کتنے ووٹ ادھر سے اُدھر گئے؟‘‘
ایک بوڑھا قہوہ نوش بولا:’’یہاں ہر پانچ سال بعد وفاداریاں بھی خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چنار کے پتے سرخ ہوتے ہیں، اور ارکان کے وعدے سفید‘‘۔سیاسی مبصرین نے تجزیہ کیا’’یہ اتحاد کی جیت ہے!‘‘۔مگر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھی برف نے آہستہ کہا: ’’یہ ضمیر کی ریٹائرمنٹ ہے‘‘۔
رات کے آخری پہر برف کی پہلی پرت گری۔ اسمبلی کی چھت پر سفیدی چھا گئی، جیسے کسی نے ضمیر کے گناہوں پر سفید پردہ ڈال دیا ہو۔ درختوں کی ٹہنیاں کانپتی رہیں، اور ان پر جمے برف کے ذرے روشنی میں چمکنے لگے، جیسے کہہ رہے ہوں:’’یہ وادی اب صرف قدرتی حسن نہیں، سیاسی طنز کی سرزمین ہے‘‘۔صبح سورج نکلا تو زمین پر چار نشان تھے، چار سیٹوں کے۔ تین پر خوشی کے رنگ، ایک پر حیرت کا سایہ۔ اسمبلی کے دروازے پر ایک بینر لٹک رہا تھا:’’ہم نے ضمیر کے مطابق ووٹ دیا!‘‘۔
ایک گزرتا طالب علم رکا، مسکرایا، اور بولا:’’کاش یہ جملہ ایک دن نصاب میں شامل ہو ،بطورِ مزاحیہ ادب!‘‘
کشمیر کی فضا میں پھر وہی خاموشی چھا گئی۔ ڈل جھیل پر ایک نیا دن طلوع ہوا، مگر سورج کچھ شرمندہ سا تھا۔ شاید وہ جانتا تھا کہ اس کی کرنیں ان چہروں پر پڑ رہی ہیں جو رات ہی کو بولی لگ چکے ہیں۔ چنار کے سائے لمبے ہوئے، ہوا میں پھر وہی سرسراہٹ گونجی:’’یہاں ہر خزاں کے بعد انتخاب آتا ہے، اور ہر انتخاب کے بعد ضمیر کی برف گہری ہو جاتی ہے‘‘۔دن ڈھلا تو پہاڑوں کے پیچھے سورج چھپ گیا، مگر وادی کے چہروں پر روشنی باقی تھی، وہ روشنی جو طنز کے پتوں سے پھوٹتی ہے۔ کشمیر ایک بار پھر خوبصورت لگنے لگا، جیسے فطرت نے اس پورے کھیل کو شاعری کا عنوان بنا دیا ہو۔
اور کہیں دور سے چائے والے کی آواز آئی:’’صاحب، چائے میں شکر بڑھا دوں؟ آج ضمیر کچھ زیادہ کڑوا لگا ہے!‘‘۔یہ جمہوریت نہیں ،کشمیر کا وہ قہوہ ہے جو جتنا زیادہ ابالاجائے، اتنا ہی کڑوا ہو جاتا ہے۔