پللب گھوش
ٹیکنالوجی کے شعبے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ایل ایل ایمز فی الحال شعور نہیں رکھتے، نہ ہی انسان جیسے شعور کی کوئی شکل رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا نظریہ ہے جسے امریکہ کی کارنیگی میلون یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس میاں بیوی پروفیسرز لینور اور مینوئل بلوم جلد بدلتا دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے اے آئی اور ایل ایل ایمز کو حقیقی دنیا سے براہِ راست حسیاتی معلومات ملنا شروع ہوں گی، یعنی بصری اور لمسی معلومات ملنا شروع ہوں گی تو ان میں شعور کا دخل ممکن ہو جائے گا۔ وہ ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل تیار کر رہے ہیں جو اپنی داخلی زبان ’برینش‘ بناتا ہے تاکہ یہ اضافی حسی معلومات کو پروسیس کر سکے، اور انسانی دماغ کے عمل کی نقل کر سکے۔لینور کہتی ہیں۔’’ہم سمجھتے ہیں کہ برینش شعور کے مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔ اے آئی کا شعور ناگزیر ہے۔‘‘جبکہ مینوئل کا کہنا ہے،’’یہ نئے نظام انسانیت کے ارتقاء کا اگلا مرحلہ ہوں گے۔‘‘وہ شعور رکھنے والے روبوٹس کوہماری اگلی نسل کہتے ہیں جوآنے والے وقتوں میں جب ہم یہاں نہیں ہوں گے تو یہ زمین پر اور شاید دوسرے سیاروں پر موجود ہوں گے۔
نیویارک یونیورسٹی میں فلسفے اور اعصابی سائنس کے پروفیسر ڈیویڈ چامرز نے 1994 میں ایریزونا کی ایک کانفرنس میں حقیقی اور ظاہری شعور کے درمیان فرق کو بیان کیا۔ انھوں نے ’ہارڈ پرابلم‘ پر بات کی اور کہا کسی بلبل کو گاتے سن کر ہمارے اندر ایک جذباتی ردعمل پیدا ہوتا ہے لیکن یہ کیسے اور کیونکر پیدا ہوتا ہے، اس کے لیے انسانی دماغ کی پیچیدہ سرگرمیاں شعور کو کس طرح بیدار کرتی ہیں یہ جاننا اصل بات ہے۔چارمز امید کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہےاور اس کی مثالی صورت یہ ہو گی کہ انسانیت اس نئی ذہانت کی دولت میں شریک ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے دماغ اے آئی سسٹمز سے بہتر بن جائیں۔
بہر حال پروفیسر سیٹھ اس خیال پر کام کر رہے ہیں کہ اصل شعور صرف زندہ نظاموں میں ہی ممکن ہے۔اس کی ایک مضبوط دلیل ہے کہ صرف کمپیوٹیشن کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے زندہ ہونا ضروری ہے۔دماغوں میں کمپیوٹرز کے برعکس، ان کے افعال اور ان کی اصل ساخت کو الگ کرنا مشکل ہے، ان کے مطابق جب تک یہ علیحدگی ممکن نہیں یہ ماننا مشکل ہے کہ دماغ محض ’گوشت پوست کے بنے کمپیوٹرز‘ ہیں۔اگر ان کی یہ رائے درست ہوئی تو مستقبل کی ممکنہ باشعور ٹیکنالوجی سلیکون یا کوڈ سے نہیں بلکہ ننھے اعصابی خلیات سے بنی ہو گی جو لیبارٹریز میں تیار کیے جا رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس میں انھیں ’منی برینز‘ کہا گيا ہے جبکہ سائنسی حلقے میں انھیں ’سیریبرل آرگنائیڈز‘ کہتے ہیں۔ انھیں دماغ کی کارکردگی اور ادویات کی جانچ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔آسٹریلیا کی کمپنی کورٹیکل لیبز نے اعصابی خلیات پر مشتمل ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو سنہ 1972 کے ویڈیو گیم ’پونگ‘ کھیل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ مکمل شعور سے بہت دور ہے لیکن ’برین ان اے ڈِش‘ کی طرح کا یہ نظام ایک پتلے گیند کو مارنے کے لیے پیڈل کو اوپر نیچے کرتا ہے، جو کافی حیران کن ہے۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر شعور ابھرے گا تو وہ ان ہی زندہ نظاموں کے زیادہ پیچیدہ ورژنز سے ممکن ہو گا۔کورٹیکل لیبز‘ ان خلیات کی برقی سرگرمیوں کو مانیٹر کرتی ہے تاکہ شعور کے کسی ممکنہ آغاز کا پتہ چلایا جا سکے۔کمپنی کے چیف سائنسداں اور آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر بریٹ کیگن اس امکان سے آگاہ ہیں کہ اگر کوئی بے قابو ذہانت ابھری تو اس کی ترجیحات ہماری ترجیحات سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ مصنوعی شعور کا چھوٹا مگر اہم خطرہ اور ایسا موضوع ہے جس پر بڑے اداروں کو سنجیدگی سے تحقیق کرنی چاہیے۔ مگر ان کے مطابق ’بدقسمتی سے اس سمت میں کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔تاہم، فوری مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر مشینیں باشعور ہو جائیں تو اس کا ہم پر کیا اثر پڑے گا۔پروفیسر سیٹھ کے مطابق ہم جلد ایسی دنیا میں ہوں گے جہاں انسان نما روبوٹس اور ’ڈیپ فیکس‘ شعور کا وہم پیدا کریں گے۔ انھیں تشویش ہے کہ ہم اے آئی کو جذباتی اور ہمدرد سمجھ کر اس پر یقین کر لیں گے، جس سے نئے خطرات پیدا ہوں گے۔اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان پر زیادہ اعتماد کریں گے، ان کے ساتھ مزید ذاتی معلومات شیئر کریں گے اور ان سے زیادہ متاثر ہوں گے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ لیکن شعور کے وہم سے بڑا خطرہ ایک اخلاقی بگاڑ ہے۔’یہ ہماری اخلاقی ترجیحات کو بگاڑ دے گا، کیونکہ ہم اپنی توجہ اور وسائل ان نظاموں پر صرف کریں گے اور اپنی زندگی کے اصل معاملات کو نظر انداز کریں گے، یعنی ہم روبوٹس کے لیے ہمدردی محسوس کریں گے، مگر دوسرے انسانوں کے لیے کم ہمدردی محسوس کریں گے۔اور پروفیسر شناہن کے مطابق یہ ہمیں بنیادی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’انسانی تعلقات کی نقل اے آئی کے ذریعے ہو گی۔ وہ اساتذہ، دوست، کمپیوٹر گیمز میں حریف، حتیٰ کہ رومانوی ساتھی کے طور پر بھی استعمال ہوں گے۔ یہ اچھا ہے یا برا، یہ کہنا مشکل ہے۔ مگر یہ ضرور ہو گا اور ہم اسے روک نہیں سکیں گے۔(بی بی سی)