تحقیق و دریافت
نداسکینہ صدیقی
دنیا کے مختلف خطوں کے سائنس داں حیرت انگیز ایجادات اوردریافتوں میں سر گر م ہیں اور دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کا کینوس وسیع ہورہا ہے ۔ علم وحکمت کی پرواز جاری ہےاور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات ،دریافتوںاور تحقیقات کے متعدد جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ بجلی تیار کرنے کے نت نئے طریقےدریافت کیے، مختلف کاموں کے لیے روبوٹس بنائےگئے۔ڈرون اور خودکار کشتی تیار کی گئی، ایک راکٹ میں 143 سیٹلائٹ بھیج کر نیا ریکارڈ قائم کیا گیا اور بہت کچھ منظر عام پر آیا ہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں اور کیا کیا ہوا ،اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا ۔
کھانا خود گرم کرنے والا لنچ باکس:
ہالینڈ کےانجینئر نے ایک ایسا لنچ باکس تیار کیا ہے ،جس میں چولہا اور مائیکروویو نصب کیا گیاہے ۔اس کو ’’ہیٹ باکس ‘‘ کانام دیا ہے ۔یہ یو ایس بی سے چارج ہوتا ہے ۔اسے چارج کرنے کے بعد آپ کہیں بھی لے جاسکتے ہیں ۔ کھانا کھانے سے قبل بس سوئچ آن کرنا ہوگا،جس کے بعد اندر موجود اسٹیم غذا کو اچھی طرح گرم کردیتی ہے۔ اس کے لیے صرف 20 ملی لیٹر پانی اندر ڈالناہوتا ہے جو اندر موجود اسٹیل کے برتن میں چلا جاتا ہے۔ گرم بھاپ کھانے کے ہر حصے سے ہوتی ہوئی اسے فوری طور پر گرم کردیتی ہے۔ لنچ باکس میں موجود اندرونی والو بھاپ کا دباؤ برقرار رکھتے ہیں اور یوں برتن کے اندر کا دباؤ خوف ناک حد تک بلند نہیں ہوتا۔ ایپ کے ذریعے بھی لنچ باکس کی حرارت کو کم، درمیانہ اور بلند یا جاسکتاہے۔
سمندری فرش پر تحقیق کرنے والی خود کار کشتی :
امریکی کمپنی نے ڈرون کشتی تیار کی ہے جو شمسی توانائی سے خودکار انداز میں آگے بڑھتے ہوئے سمندری فرش کا نقشہ بناتی ہے اور سمندری ماحول کا قیمتی ڈیٹا بھی جمع کرتی ہے۔اس کی لمبائی 72 فٹ ہے ۔ بنیادی طور پر یہ ہوا کی قوت سے ہی آگے بڑھتی ہے لیکن اس پر لگے تمام برقی آلات اور رہنما نظام شمسی توانائی سے ہی بجلی بناتےہیں۔ اس پر دنیا کے جدید ترین سمندری، بحری اور موسمیاتی آلات و سینسر بھی لگے ہوئے ہیں۔اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور یہ خودکار انداز میں بھی چل سکتی ہے لیکن پورے ایک سال کے مشن پر کام کرسکتی ہے۔ پانی میں حیاتی مواد (بایوماس) اور سمندر میں گھلی کاربن کی پیمائش اس کے اولین مقاصد میں شامل ہیں۔اس کا تیسرا ہدف سمندری گہرائی میں فرش کی نقشہ کشی ہے، کیوںکہ اب تک ہم صرف 20 فی صد سمندری فرش کو ہی دیکھ سکے ہیں۔
ایک راکٹ میں 143 سیٹلائٹ بھیجنے کا ریکارڈ :
اسپیس ایکس نامی کمپنی نے ایک راکٹ سے 143 سیٹلائٹس مدار میں بھیجنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ ٹرانسپورٹر ون مشن کے تحت فالکن نائن راکٹ بوسٹر نے کیپ کناورل خلائی اڈے سے اڑان بھری ،جس کے اوپر سیٹلائٹ عین اسی طرح لگائے گئے ہیں ،جس طرح سپر اسٹور کے خانوں میں اشیا رکھی جاتی ہیں۔ کمپنی نے اسمال سیٹ رائیڈ شیئرپروگرام کے تحت یہ سیٹلائٹ بھیجے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہی جست میں قدرے محدود لیکن کم خرچ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنا ہے۔ اس سے چھوٹے سیٹلائٹ کے منصوبوں پر کام کرنا آسان ہوجاتا ہےاور اس کی بدولت انٹرنیٹ کی عالمی سہولت فراہم کی جائے گی۔
سات اسکرین والا دنیا کا پہلا لیپ ٹاپ:
برطانوی کمپنی ایکسپین اسکیپ نے گذشتہ سال دنیا کا ایک انوکھا لیپ ٹاپ بنایا ہے، جس میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پوری سات ڈسپلے اسکرین ہیں جو انتہائی سنجیدہ کاموں کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ اس کمپیوٹر کو ’’ایکسپین اسکیپ آرورا سیون ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اسے سائبرسیکیورٹی، سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج، آئی ٹی ماہرین، ڈیزائنر، اسٹاک ایکسچینج اور آن لائن ٹریڈنگ ماہرین کے لیے بطورِ خاص تیار کیا گیا ہے۔اگرچہ عموماً ورک اسٹیشن پر ایک یا دو ڈسپلے کافی ہوتے ہیں لیکن عام افراد ایک سے زائد اسکرینوں سے پریشان ہوسکتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا لیپ ٹاپ ہے، جس پر مختلف جسامت کے سات ڈسپلے لگائے گئے ہیں۔اس میں17.3 انچ کے چار بڑے مانیٹر ہیں جن میں سے دو لینڈ اسکیپ اور دو پورٹریٹ اسٹائل کے ہیں۔ سب کے سب فورکے اسکرین ریزولوشن کے حامل ہیں۔ جب کہ سات سات انچ کے تین ڈسپلے اور لگائے گئے ہیں۔ اس کا مضبوط ڈھانچہ تمام ڈسپلے کو سنبھالتا ہے اور دیکھنے میں یہ لیپ ٹاپ کا ٹرانسفارمر لگتا ہے۔
پلاسٹک آلودگی کا اصل مقام بتانے والی ایپ :
پلاسٹ آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے ۔اس کو حل کرنے کے لیے اس سال ناروے کی یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این ٹی این یو ) نے ایک ایپ تیار کی ہے جو بتا سکتی ہے کہ یہ کچرہ کہاں سے آیا ہے ؟اس ایپ کو استعمال کرکے ساحل پر چہل قدمی کرنے والے عام افراد بھی کچرے کی تصویر لے کر اس کے جی پی ایس (کوآرڈینیٹس) کے ساتھ اسے ایپ کے ڈیٹا بیس میں بھیج سکتے ہیں۔جوں ہی آپ پلاسٹک سے بنی کسی شے کی تصویر لیتے ہیں، ایپ ڈیٹا بیس سے پہچان لیتی ہے کہ یہ کونسی شے ہے۔ اس کے بعد وہ پانی کی لہروں، موسمیاتی کیفیات اور سمندری بہاؤ کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ کچرا کہاں سے آیا ہے۔اس ایپ کےذریعے کوڑا کرکٹ والی جگہوں کی صفائی بھی کی جاسکتی ہے ۔
پانی میں ڈوب کر بجلی بنانے والی پتنگ :
اس سال سائنس دانوں نے پتنگ نما پیراک آلے کا تجربہ کیا جو سمندری لہروں کےبل پر بجلی تیار کرےگی۔اسے ’’مینٹاسسٹمز‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو نہ صرف سمندر بلکہ دریاؤں کی لہروں سے بھی بجلی بناسکتا ہے۔اس کا دل و دماغ پالیمر کمپوزٹ فوم سے بنی پتنگ ہے ،جس کی شکل ہوبہو مینٹا رے مچھلی سے ملتی ہے۔ یہ پتنگ ایک تار سے جڑی ہوتی ہے اور اس کا اگلا سرا سمندری فرش یا دریا کے اس حصے پر کھونٹے کی طرح نصب ہوتا ہے جہاں پانی کی تیز لہریں بن رہی ہوتی ہیں۔ تار کا سرا برقی موٹر اور ایک جنریٹر سے جوڑا جاتا ہے۔ تار کھلتا چلاجاتا ہے اور جنریٹر کو گھماتا ہے۔ یہ جنریٹر بجلی بناکر اسے ایک بیٹری میں جمع رکھتا ہے یا براہِ راست مرکزی گرڈ نظام تک منتقل کردیتا ہے۔جب تار پورا کھل جاتا ہے تو ریل والی موٹر اسے دوبارہ کھینچتی ہے اور پھر یہ دوبارہ بجلی بنانے کے قابل ہوجاتی ہے۔ نظری طور پر ایک پتنگ سے 20 میگا واٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے۔
خلاء میں سیر کرانے والا کیپسول :
سائنسدانوں نے چند سال قبل انسانوں کو خلاء کی سیر کروانے کے ایک کیپسول تیار کیا ہے، جس پر ٹکٹ کے عوض آپ پورے خلاء کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس خوبصورت غبارے کو نظامِ شمسی کے ایک سیارے کے تحت’’ اسپیس شپ نیپچون ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔یہ کسی بہت بڑے روایتی گرم غبارے جیسا ہے لیکن اس میں ہیلیم گیس بھری گئی ہے جو ہائیڈروجن کے بعد کائنات کی دوسری سب سے ہلکی گیس ہے۔مسافر بردار خلائی غبارہ بھی اسی نوعیت کا ہے لیکن جسامت میں یہ تحقیق کی غرض سے استعمال ہونے والے ہیلیم بھرے غباروں سے بہت زیادہ بڑا ہے۔غبارے کے نیچے ایک لمبی اور مضبوط تار ہے، جس کے ساتھ مسافر بردار کیپسول بندھا ہے، جس میں آٹھ مسافروں اور ایک پائلٹ کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
پانی کے اندر تیرنے والا ’’آبدوز ڈرون‘‘ :
رواں برس بیجنگ کی روبوٹ بنانے والی کمپنی نے زیر آب تیرتے ہوئے جاسوسی کرنے والا ڈرون تیار کیا ہے ۔ یہ دیکھنے میں عام سی مچھلی کی طر ح لگتا ہے ۔ یہ ڈرون نہ صرف دیکھنے میں مچھلی جیسا ہے بلکہ اس کے تیرنے کا انداز بھی بالکل مچھلی کی طرح ہے۔اس ’’آبدوز ڈرون‘‘ کی آنکھوں میں جاسوس کیمرے نصب ہیں جو سمندر کے اندر بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اس کی کھال میں کئی طرح کے سینسرزبھی نصب کیے گئےہیں جو اسے سمندری پانی کے درجۂ حرارت سمیت دوسری مختلف خصوصیات سے مسلسل باخبر رکھتے ہیں۔ اسے بحری علوم اور سمندری زندگی پر تحقیق کرنے والوں کےلیے بنایا گیا ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر اس سے سمندر کی خفیہ نگرانی کا کام بھی لیا جاسکتا ہے اور مستقبل میں یہ کار آمدثابت ہوگا ۔(جاری)