ٹی ای این
سرینگر//بھارت عالمی چاول تجارت میں نئی اور وسیع منڈیوں کی طرف بھرپور پیش قدمی کیلئے تیار ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے 30 تا 31 اکتوبر 2025 کو نئی دلی کے بھارت منڈپم میں ہونے والی ’’بھارت انٹرنیشنل رائس کانفرنس 2025 کو اسی عالمی مہم کا بہترین پلیٹ فارم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ دو روزہ کانفرنس محکمہ تجارت، اے پی ای ڈی اے اور انڈین رائس ایکسپورٹرز فیڈریشن کے اشتراک سے منعقد ہو رہی ہے جس کا ہدف 25 ہزار کروڑ روپے کی برآمدی مفاہمتیں طے کرنا اور بھارت کو عالمی چاول سپلائی چین میں مزید مضبوط اور بااعتماد ملک کے طور پر پیش کرنا ہے۔اسی موقع پر اہم سوال یہ اْبھر رہا ہے کہ کیا جموں و کشمیر اپنی بیش قیمت چاول اقسام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے؟ اور کیا شیرِ کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (SKUAST) نے تحقیق و جدت کو تجارتی کامیابی میں بدلنے کے لیے مطلوب اقدامات کر لیے ہیں؟برکس 2025 میں جموں و کشمیر کے لیے ایک مخصوص پویلین قائم کیا جا رہا ہے، جہاں ریاست کے جی آئی (GI) ٹیگ شدہ اور خصوصی اقسام کے چاول پیش کیے جائیں گے۔ سرکاری دستاویزات میں خاص طور پر خوشبودار مْشک بْدجی کا ذکر شامل ہے جسے ملیشیا، سنگاپور کی ڈش نسی ایام اور جاپانی کھانوں سوشی و ڈون بْری کے ساتھ میچ کیا گیا ہے۔ یہ قدم واضح کرتا ہے کہ بھارت دنیا میں مْشک بْدجی کی شناخت مضبوط کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔مزید برآں سنگم اننت ناگ کے مشک بدجی پیدا کرنے والے کسان پروڈیوسر آرگنائزیشن نے حال ہی میں درآمد و برآمد لائسنس حاصل کیا ہے، جس سے ریاست کی عالمی چاول منڈی تک رسائی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔سکاسٹ کشمیر نے گزشتہ برسوں میں کئی اہم اقسام متعارف کرائی ہیں جن میں شالیمار رائس 4 (SR-4) جس کی پیداوار روایتی نظام سے کہیں زیادہ یعنی 81 کوئنٹل فی ہیکٹیئر تک درج کی گئی ہے۔ جموں باسمتی 118 اور جموں باسمتی 123 جنہیں عالمی برآمدی معیارات کے عین مطابق قرار دیا جاتا ہے اور یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 15 سے 25 فیصد زائد پیداوار دیتی ہیں۔ مشک بدجی کی بحالی اور جی آئی ٹیگ کے حصول میں یونیورسٹی کا کلیدی کردار۔تاہم چیلنج اب بھی برقرار ہیں۔مشق بدجی کی بڑی کمزوری اس کا چاول کی تباہ کن بیماری ’بلاسٹ‘ کے خلاف کمزور ہونا ہے۔ کسانوں کی فنگیسائیڈ اسپرے سے ہچکچاہٹ بھی پیداوار کو غیر یقینی بناتی ہے۔ اسی طرح نئی اقسام کی ریاست گیر سطح پر بڑے پیمانے پر قبولیت ابھی مطلوب ہدف تک نہیں پہنچی۔برکس 2025 میں بھارت پہلی AI بیسڈ چاول sorting ٹیکنالوجی متعارف کرائے گا، جبکہ 26 ممالک کو بھارتی اقسام کی سپلائی بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے جس سے 1.80 لاکھ کروڑ روپے کی نئی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔یہ کانفرنس جموں و کشمیر کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتی ہے جہاں اسے نہ صرف اپنی منفرد زرعی وراثت پیش کرنی ہے بلکہ عالمی برآمدی معیارات پر بھی پورا اترنے کی صلاحیت دکھانا ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تحقیق، پروسیسنگ، برانڈنگ اور مارکیٹنگ کا نظام مضبوطی سے آگے بڑھا تو مشق بدجی اور جدید باسمتی اقسام عالمی چاول تجارت میں جے اینڈ کے کی شناخت کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہیں۔