میر شوکت پونچھی
ڈل جھیل کی سنہری لہروں پر شام کا عکس یوں لرز رہا ہے جیسے کوئی بوسیدہ آئینہ کسی درویش کے کٹیا میں لٹکا ہو اور ہلکی ہوا اسے تھوڑا تھوڑا ہلا کر کہہ رہی ہو: ’’دیکھ، یہ منظر اب بھی باقی ہے، مگر تیری چمک جا چکی۔‘‘ سری نگر کے بوسیدہ در و دیوار پر وقت کے کیل یوں گڑے ہیں کہ تاریخ کے سارے کیلنڈر بھی کم پڑ جائیں۔ انہی فضاؤں میں، راج بھون کے نیم تاریک کمرے میں عمر عبداللہ صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں۔ وہی کرسی جسے کبھی اقتدار کا تخت سمجھا جاتا تھا، آج تماش بینوں کے لیے ہنسی کا سامان بن چکی ہے۔ وہ یوں بیٹھے تھےجیسے کوئی سپاہی شکست کے بعد اپنی بندوق زمین پر رکھ کر، آسمان کی طرف خالی نظروں سے دیکھتا ہے۔ مگر سپاہی کی ہزیمت میں بھی ایک وقار ہوتا ہے، یہاں تو وقار بھی گم ہو چکا تھا۔کبھی یہ کرسی کشمیر کے تاج کا استعارہ تھی، آج یہ کرسی دکاندار کی وہ کرسی بن گئی ہے جس پر محلے کا ہر چھوٹا بچہ آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی امی کو خوش ہو کر کہتا ہے: ’’دیکھو! میں بھی دکان دار بن گیا۔‘‘ بس یہی حال عمر صاحب کا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ کے تخت پر تو براجمان ہیں، مگر ان کے دستخط ایک دفتری کلرک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کے سامنے جو افسر آتا ہے، یوں سلام کرتا جیسے کسی پرانی قبریا مزار کے کتبے کو چھو کر آگے نکل گیا ہو۔ ادب کی خوشبو نہیں، محض رسم کا بوجھ۔ اور پھر کمرہ دوبارہ خالی، پھر وہی تنہائی اور پھر وہی کرسی کی گھنٹی۔
جی ہاں، وہی گھنٹی! دراصل یہ کرسی اب گلے میں بندھی ایک گھنٹی ہے جسے کوئی بھی، کبھی بھی، ذرا سا ہلا دیتا ہے اور پوری دنیا جان لیتی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ یہ اقتدار نہیں ، یہ زلت کا پٹہ ہے۔ عمر صاحب اسے عزت کا ہار سمجھ کر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی ہار تھا جس میں کانٹے پروئے گئے تھے، اور ہر کانٹا ان کے وجود کو چھلنی کرتا جاتا۔
اقتدار کے نشے کا ذکر بھی عجب ہے۔ اقتدار واقعی افیون ہے، مگر افیون بھی سکون دیتی ہے۔ یہاں تو نشے کی جگہ صرف کڑواہٹ تھی۔ جیسے پرانی بوتل میں شراب کے بجائے تلچھٹ رہ جائے اور کوئی بد نصیب اسے بار بار پی کر حلق کو جلائے۔ یہ اقتدار نہیں ، یہ زہر ہے جو گھونٹ گھونٹ پی کر بھی انسان کو سرور نہیں دیتا، بس چہرے کی جھریاں بڑھا دیتا ہے۔ عمر صاحب کا حال کچھ ایسا ہی ہے: کرسی پر بیٹھے وہ نشے میں نہیں بلکہ کسی پرانے مداری کے اس بندر کی طرح لگتے ہیں جس کی کمر پر ڈھولکی باندھ دی گئی ہو، اور ہر راہ چلتا اسے بجا کر خوش ہو۔
ادھر سری نگر کی گلیوں میں لوگ چائے خانوں پر بیٹھے ان کی بے بسی کے قصے ہنسی میں سناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے: ’’یہ وزیرِ اعلیٰ نہیں، سرکاری مہمان ہیں۔‘‘ دوسرا قہقہہ لگا کر کہتاہے: ’’مہمان بھی وہ جس کے ہاتھ میں تالی بجانے کی اجازت تک نہیں۔‘‘ یہ طنز ہے یا سچ، فیصلہ مشکل ہے، مگر گلیوں کی دیواریں تک اس بے چارگی پر ہنس رہی ہیں۔
معراج ملک کی مثال اکثر دی جاتی۔ وہ شخص قید میں گیا تو عزت کے پہاڑ پر کھڑا ہو گیا۔ قید کے دروازے کی زنجیر اس کے لیے وقار کی گھنٹی بن گئی۔ اور یہاں عمر صاحب قید میں تو نہ ہیں، مگر ان کے گرد کرسی کی زنجیر ہے، جسے ہر افسر، ہر وزیر، ہر دفتری ملازم بجا دیتا اور وہ مجبور مسکین، معصوم سا مسکراتا رہ جاتا۔ یہ مسکراہٹ بھی ایک المیہ ہے، جیسے کسی بچے کو زبردستی تصویر کے لیے کہہ دیا جائے ’’بیٹا ہنسو‘‘ اور وہ دانت نکال کر دکھا دے، مگر آنکھوں میں نمی باقی رہے،دراصل یہ وہ اقتدار ہےجو کھوکھلے ڈبے کی طرح ہے۔ باہر سے چمکدار رنگ، اندر سے خالی۔ جیسے شادی کے باراتی کے سر پر سہرا ہو مگر اس کے نیچے آنکھوں میں اداسی چھپی ہو۔ جیسے چمکتی کار پر سجاوٹ ہو مگر انجن میں تیل نہ ہو۔ وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ اس وقت ایک سجیلا ڈبہ ہے جس میں کچھ نہ ہے اور عمر صاحب نے اسی ڈبے کو سینے سے لگا رکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر استعفیٰ دے دیا جاتا تو کیا ہوتا؟
شاید تاریخ کہتی کہ یہ وہ لمحہ تھا جب عمر نے وقار کو کرسی پر قربان نہیں کیا بلکہ کرسی کو وقار پر قربان کیا۔ مگر استعفیٰ کی ہمت اس کے پاس ہوتی ہے جو اندر سے خود کو آزاد سمجھے۔ اور عمر صاحب تو قید کی عادی پرندے کی مانند ہیں جسے پنجرہ ہی گھر لگنے لگتا ہے۔ وہ پنجرہ کھل بھی جائے تو باہر نہیں اڑتا، بس اسی قید کو زندگی کا سہارا سمجھتا ہے۔
اقتدار کی گاڑیوں کے قافلے کا کیا ذکر کیا جائے؟ وہ گاڑیاں، وہ سائرن، وہ پروٹوکول! سب کچھ موجود، مگر ڈرائیور کی سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہے۔ عمر صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے محض شیشے کے پردوں کے پیچھے سے منظر دیکھتے ہیں۔ یہ منظر بھی طنز ہے۔ قافلہ چلتا تو لگتا ہے حکمران آ رہا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ایک قیدی کی ڈولی ہے، جسے چار کندھوں پر اٹھا کر یوں دکھایا جا رہا ہے جیسے شادی کا جلوس ہو۔
لوگ کہتےہیں: ’’وزیرِ اعلیٰ کا دفتر اب فائلوں کا قبرستان ہے۔‘‘ کوئی کہتا ہے: ’’ان کے دستخط کی طاقت ویسی ہی ہے جیسے بچے کی کاپی پر رنگین پینسل کا نشان۔‘‘ اور کوئی بڑھا کر کہتا ہے: ’’یہ وزیرِ اعلیٰ ہیں یا محض سلامتی کمیٹی کے ماسکوٹ؟‘‘ یہ جملے محض قہقہے نہیں ، یہ اس کرسی کی اصلیت کے آئینے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ عمر عبداللہ کا وزیرِ اعلیٰ ہونا ایسے ہی ہے جیسے برف باری کے دن میں کوئی شخص پنکھا لے کر بیٹھ جائے۔ پنکھا گھومتا رہے، ہوا بھی نکلے، مگر فائدہ کچھ نہ ہو۔ عوام سردی سے ٹھٹھر رہی ہو اور صاحب پنکھے کے بٹن سے کھیل کر خود کو حکمراں سمجھیں۔ یہی طنز کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
کیا یہ سب دیکھنے کے بعد بھی عزت بچ سکتی ہے؟ جی ہاں، اگر وہ کرسی کو ٹھکرا دیں۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے، کیونکہ ان کے سامنے اقتدار کا وہی نشہ ہے جسے ترک کرنا مشکل ہے۔ چاہے وہ نشہ کڑوا ہو، بے اثر ہو، نقصان دہ ہو، مگر عادی انسان کے لیے زہر بھی امرت لگتا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہے، مگر پھر بھی اس ڈرامے کا پردہ گرنے نہیں دیتے۔ وہی کرسی، وہی گھنٹی، وہی قافلے، وہی سائرن—اور ان سب کے بیچ ایک مجبور، محکوم، محصور اور معصوم وزیرِ اعلیٰ، جو اپنے ہی سائے سے نظر ملانے سے کتراتا ہے۔
یہی ہے آج کا کشمیر کا منظر:
ایک کرسی جو وقار کی بجائے زلت کی علامت ہے۔
ایک وزیرِ اعلیٰ جو حکمراں نہیں، مہرہ ہے۔
ایک عوام جو تماش بین ہے۔
اور ایک تاریخ جو قہقہہ لگا کر لکھ رہی ہے: ’’کبھی کبھی اقتدار کی گھنٹی، عزت کے تابوت پر بھی بجتی ہے۔‘‘