ڈاکٹر فلک فیروز
ایک دانش نورانی ایک دانش برہانی
ہے دانش برہانی، حیرت کی فراوانی
كَمَآ أَرسَلنَا فِيكُم رَسُولٗا مِّنكُم يَتلُواْ عَلَيكُم ءَايَٰتِنَا وَيُزَكِّيكُم وَيُعَلِّمُكُمُ ٱلكِتَٰبَ وَلحِكمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَم تَكُونُواْ تَعلَمُون ۔
) Just as We have sent among you a messenger from yourselves reciting to you Our verses and purifying you and teaching you the Book and wisdom and teaching you that which you did not know(
کائنات کے خالق نے دنیا میں بےشمار لوگ پیدا کیے ہیں انھیں الگ الگ قوموں میں تقسیم کرکے انہیں ہدایات کی پیروی کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان کے لیے الگ الگ پیغام رسا ارسال کئے تاکہ ان کی تربیت ممکن ہوسکے اور وہ دانش و حکمت نیز عقل کا استعمال کریں ۔ تمام صحیفہ آسمانی میں اللہ تعالیٰ نے عقل اور دانش سے کام لینے کا مشورہ صادر بھی فرمایا ہے اور اس سے اپنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ قرآن پاک میں دانشوری (علم) کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسے فضیلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، قرآنی آیات میں علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے کو برابر نہیں کہا گیا اور انسان کو غور و فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسلام میں علم کی ابتداء لفظ ’’اقراء‘‘ سے ہوئی، جو انسان کو ذات، معاشرے، کائنات اور خالق سے روشناس کراتا ہے۔قرآن عقل والوں کو نصیحت حاصل کرنے والا قرار دیتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے لیے عقل کا استعمال ضروری ہے۔
) wisdom is the ability to apply that knowledge with insight, good judgment, and perspective to make sound decisions and act appropriately in situations. Knowledge can be acquired through education and memorization, but wisdom requires experience, understanding, and the ability to discern the relevance and timings(۔
مختلف علمی نظریاتی مشاہداتی بنیادوں پر کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم حاصل کی جاتی ہے یا حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ دانش کا براہ راست تعلق اس سے ہے کہ کرنے حاصل شدہ علموم کا اطلاق کہاں پراور کس طرح ہو سکے یا عمل و رد عمل کی سطح پر کس طرح سے استعمال کرنا ہے یا کرنا لازم ہے ۔ دانش کے جو نمایاں خدوخال ہیں ان کی ترتیب یوں پیش کی جاتی ہے۔ادراکی اور عکاسی سطح پر نمایاں خدوخال کی فہرست اس طرح ترتیب دی جاسکتی ہے۔
۱۔ دانش کا بنیادی لوازمہ یہ ہے کہ کھلے دل اور دماغ سے کام لے کر تمام حالات کا مشاہدہ زمانے کی ہوا اور اسکے مزاج کے مطابق کرے۔ جلد بازی سے پرہیز کرتے ہوئے طویل مدتی اور دور اندیشی ،تدابیر کے پیراے میں تجربات نیز مشاہدات کے آینے میں فیصلہ صادر کرنا۔تضاد کی قبولیت کے عمل کو اپناتے ہوئے ابہام کے بجائے مسلے کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔مختلف الجہات نقطہ نظر کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔کھلی ذہنیت کے ساتھ خیالات ،کثیرالجہات کے آینے میں معاملات کو سمجھنا ۔دوربینی سے کام لیکر اپنے جذبات ،اپنی ذہانت ،صلاحیت ،کمزوری،کو جان کر مشاہدہ نفس کا جائزہ لینا۔علم اور تجربہ کی بنیاد پر مسائل کی نوعیت کو سمجھ لینا اور ان کا حل پیش کرنا۔
جذباتی اور سماجی سطح پر دانش کے نمایاں خدوخال کی فہرست اس طرح سے ترتیب دی جاسکتی ہے ۔
جذباتی توازن کو قائم رکھنا ۔دوسرے لوگوں کے جزبات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ،پیدا کرنا ۔اعصابی و عملی سطح پر فیصلہ کن ہونا۔سالمیت ،اعتباریت ،اصول و ضوابط ،ایمانداری کو اپنانا ۔خود نظمی و سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنا ۔متوازن نقطہ نظر قایم کرنا ۔نئی اختراعیت ،نیے خیالات کے ذریعے سے لوگوں کی آراییں تبدیل کرنے کا ہنر سیکھنا۔
علم ،فلسفہ و تہذیب انسانی کی مجموعی تربیت کے آئینے میں سقراط کا نام قابل ذکر ہے، ان کا انداز نظر عملی و افادی ہے۔ اس نے کوئی مستقل نظام فلسفہ پیش نہیں کیا بلکہ لوگوں کو نیکی اور صداقت کی تلقین کی۔ انہیں صحیح فکر کی دعوت دی تا کہ وہ صحیح عمل کر سکیں، وہ مابعد الطبیعاتی خیال آرائیوں کو بے مصرف سمجھتا تھا۔ اس نے کائنات کی کنہ پر بحث کرنے کی بجائے انسان کو عقل و خرد کی رہنمائی میں صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کی ترغیب دی ،لکھتے ہیں۔’’ جو شخص اپنی زندگی کا جائزہ نہیں لیتا اور اپنے نفس کا احتساب نہیں کرتا وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے ۔‘‘
سقراط کا فکرو نظر تنقیدی ہے کہ اس میں اصول علم کی تحقیق کی گئی ہے۔ عقلی دلائل پر مبنی ہے کہ اس میں جستجوئے حق کے لیے عقلی استدلال،سوالات ،استفسارات سے کام لیا گیا ہے۔ مثالیاتی ہے کہ حقیقت کی توضیح میں ذہن انسانی کو سب سے بڑا عامل مانا ہے۔ ثنوی ہے کہ اس میں عقل کے مقابلے میں مادے کو برتر مقام دیا گیا ہے۔
نطشے فکر اور فلسفے کی دنیا کا اہم نام ہے۔اپنی مشہور زمانہ کتاب زرتشت میں فوق البشر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دس بیوقوف مل کر ایک عقل مند یا دانشور فرد کو پیدا نہیں کرسکتے ہیں یا بنا سکتے ہیں، ہاں! اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ دنیا کی آسایش اور آرام دہ چیزیں مہیا کر سکتے ہیں ۔تاریخی ابواب میں مشہور ہے کہ فلسفہ وفکر یادانش کا سبق سکھانے والوں کو کبھی بھی اپنے دور،زمانے نے تسلیم نہیں کیا ہے مگر گردش ایام نے سچ کو سچ ثابت کر کے ہی دکھایا ۔اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے بعد انسان سماج کودانش،فکر،سوچ،تفکر کی تشنگی کو بجھانے کی خاطر علم کی وسعتوں میں غوطہ زن ہونا پڑا ہے، اس کوشش کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انسانی آبادی نے تجربہ گاہوں کو قائم کیا ،مشاہدات کے مختلف الات ایجاد کئے، سائنسی علوم کے ذریعے سے دنیا کو روشناس کرایا، اپنی ذہنی تخلیقی اخترائی صلاحیتوں کو کام میں لا کر دنیا کو آسانیاں بخش دیں، برسوں کی طوالت کو سیکنڈوں میں سمیٹ دیا ،اس طرح سے اپنی ضروریات کی بنیاد پر نئی نئی چیزیں پیدا کر کے اس نے اپنی دانش اور دانشوری کا قوی ثبوت پیش کیا ،تجربات کی مدد سے زندگی کی گتھیوں کو حل کیا گیا، زندگی کی دشواریوں کو آسان سے آسان تر کرنے کی کوششیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں، اس طرح سے علم و فکر اور دانش کا بول بالا دنیا میں پیدا ہو گیا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جن دانشوروں نے اپنی دانش پیش کر کے اور روایتی فرسودہ ذاتی اصولوں کو توڑنے کی کوشش کی یا دنیا کو نئی سوچ نئی فکر نئی ترقی نئے تجربوں نئے مشاہدہ نئی اختراع نئے سوالات کرنے کا ہنر سکھا کر کچھ نیا دینے کی کوششیں کی ،انہیں یا تو جیل جانا پڑا یا پھانسی کے دار پہ چڑھنا پڑا یا زہر کا پیالہ پینا پڑا یا جلاوطنی قبول کرنی پڑی یا پھر اپنے خیالات مشاہدہ دانش سے دستبردار ہونا پڑا ،جن میں اہم نام گلیلیو گلیلی کا ہے، جنہوں نے اپنے سائنسی تجربات کے تئیں اپنے خیالات کے تئیں اپنا معافی نامہ اس طرح رقم کیا تھا۔
’میں گلیلیو گلیلی ساکنہ فلورنس جس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انصاف کیا گیا۔یہ اقرار کرتا ہوں کہ ایسے ناقص خیالات سے میں منحرف ہوتا ہوں، جن کی روح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورج نظام شمسی کا جامد مرکز ہے ،میں نہ خود ایسے غلط خیالات رکھوں گا نہ ہی ان کی تائید و حمایت کروں گا اور نہ ہی کسی کو اس کا درس دوں گا ۔‘
(مضمون جاری ہے۔ )