ڈاکٹر عریف جامعی
ربّ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کچھ اس طرح سے کی ہے کہ اسے باقی مخلوقات سے نہ صرف ممیز کیا، بلکہ اسے ممتاز بھی فرمایا۔ یعنی انسان ایک طرف اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری جانب اسے کئی طرح کے امتیازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ خدا کی طرف سے عطا کی جانے والی ان خصوصیات اور اس شرف کو قرآن نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ کہیں پر فرمایا گیا کہ ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا،‘‘ (التین، ۴) تو کہیں پر کہا گیا کہ ’’ہم نے اسے (انسان کو اپنے) دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے!‘‘ (ص، ۷۵) تاہم یہ شرف اور امتیاز بنیادی طور پر انسان کی تخلیق، جو خدائے رحمٰن کی صفت رحمت کا اظہار ہے، کے ساتھ منسلک ہے۔ اس لئے انسان کی تخلیق کو بڑی شان کے ساتھ سورہ الرحمٰن کی ابتداء میں خدا کی رحمت کے ساتھ جوڑ دیا گیا: ’’رحمٰن ہی نے قرآن سکھایا (اور اسی نے) انسان کو پیدا کیا۔‘‘ (الرحمٰن، ۱-۳)
انسان کی منفرد تخلیق اور نرالی ساخت کو جو چیز حیات انسانی کے مختلف ادوار یا مراحل کے ساتھ منسلک اور مربوط کرتی ہے، وہ انسانی شخصیت ہے۔ انسان اپنی شخصیت کے خدوخال اسی وقت تک قائم رکھ سکتا ہے جب وہ ان قویٰ کا صحیح استعمال کرے جو اسے اس مقصد کے لئے عطا کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں خدا کا فرمان ہے: ’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘(النحل، ۷۸) تاہم موجودہ زمان و مکان کے ابعاد (ٹائم اسپیس ڈائمنشنز) میں مختلف خارجی عناصر سے متاثر ہوکر انسانی شخصیت بناؤ یا بگاڑ میں سے ایک راستے کا انتخاب کرلیتی ہے۔ اگرچہ دونوں راستے رب تعالیٰ نے واضح فرمائے ہیں (البلد، ۱۰)، لیکن خیر کا راستہ اختیار کرنے سے شخصیت نکھر جاتی ہے، جبکہ شر کا انتخاب کرنے کی صورت میں انسانی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’بے شک (وہ) مراد کو پہنچا جس نے اسے (نفس کو) ستھرا کیا اور نامراد ہوا (وہ) جس نے اسے معصیت سے آلودہ کیا۔‘‘ (الشمس، ۹-۱۰)
یہاں پر اس بات کو واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ انسانی شخصیت (ہیومن پرسنالٹی) دراصل نفس انسانی سے وجود میں آتی ہے ’’جو شعوری قوت کے طور پر خواہشات اور جذبات کو معرض وجود میں لاتا ہے۔‘‘ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ یہی “خواہشات اور جذبات ’’انسانی شخصیت کے ارتقاء (پرسنالٹی ڈیولپمنٹ) کا باعث بنتے ہیں۔ خواہش انسان کو ’’ستاروں پر کمند‘‘ ڈالنے کے لئے ابھارتی ہے، جبکہ جذبات اعلیٰ نصب العین کو پانے کے لئے خطرہ مول لینے کے لئے قوت فراہم کرتے ہیں۔ یہی جذبات اور خواہشات جب منفی رخ اختیار کرتی ہیں، تو انسانی شخصیت شتر بے مہار بن کر اپنا اصلی مقصد کھو دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبران کرامؑ کی تعلیمات میں ہوائے نفس سے بچنے پر کافی زور دیا گیا ہے: ’’اے داؤد! بیشک ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔ تو لوگوں میں حق کے مطابق فیصلہ کر اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی۔‘‘(ص، ۲۶) یہی وہ شخصیت (نفس) ہے جو انسان کی حیات مستعار کو ’’بناتی‘‘ یا ’’بگاڑتی‘‘ ہے، اور یہی موت کے وقت فرشتے قبض کر لیتے ہیں: ’’اور اگر تم دیکھو جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو (اَخرجوا اَنفسکم)۔‘‘ (الانعام، ۹۳)
انسانی نفس کی وہ جہت، جو بگاڑ کی طرف لپکتی ہے، کو شیطان اپنا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ جو انسان یہاں پر احتیاط نہ برتے تو اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے ’’جیسے اسے (آسیب) شیطان نے چھو کر باؤلا بنا دیا ہو۔‘‘(البقرہ، ۲۷۵) مسئلے کی حساسیت کا اس طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بے شک شیطان تو انسان کے وجود کے اندر اس طرح جاری و ساری ہوجاتا ہے جیسے (اس کی رگوں میں) خون دوڑتا ہے۔‘‘ (بخاری) تاہم احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اس طرح دعا بھی سکھائی گئی ہے: ’’تم عرض کرو کہ اے میرے رب تیری پناہ شیاطین کے وسوسو ں سے اور اے میرے رب تیری پناہ کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘(المؤمنون، ۹۷-۹۸) تاہم تمام طرح کی احتیاط کے باوجود فقط وہی انسان نفس کی یلغار سے بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے: ’’اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے، مگر جس پر میرا رب مہربانی کرے۔ ‘‘ (یوسف، ۵۳)
ملت اسلامیہ کشمیر نہایت ہی خوش نصیب ہے کہ اس کی تشکیل اسلامی کے ابتدائی مراحل میں ہی اسے ایک ایسے معلم اور معالجِ نفس ملے جنہوں نے نہ صرف نفس انسانی کی تشریح کی، بلکہ اس کے شرور سے بچنے کے گر بھی سکھائے۔ اس معالج سے ہماری مراد شیخ نور الدینؒ سے ہے۔ آپ نے زہد کی مقامی روایت کی کچھ اس طرح اسلامی تشکیل کی کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی توضیح اور تشریح معلوم ہوتی ہے۔ کشمیر کی رشی روایت سے بے خبر یا راہ سلوک کے اسرار و غوامض سے غیر محرم شخص شیخ کی انسانی نفس سے متعلق تشریحات کو نفس کشی سے تعبیر کرسکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیخ ایک ماہر نفس اور معالجِ نفس کے طور پر نفسانی (روحانی) بیماریوں کی نہ صرف تشخیص کرتے ہیں، بلکہ قدم قدم پر نفس سے متعلق مختلف بیماریوں کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شیخ کے یہ روحانی نسخے ایسی جاندار زبان میں ادا ہوتے ہیں، کہ ہر نسخہ زبان و ادب کا ایک انمول نمونہ بن جاتا ہے۔شیخ نور الدین رحمتہ اللہ علیہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نفس کو قابو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تاہم اسے خدا کے احکام کا پابند بنانا ناممکن بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نفس کو خدا کا مطیع فرمان بنانا بھی سکھاتے ہیں:
نفس چھُی ہکھُر گنڈُن آلَس تَے
خوفچ رَز تَس شراک موٗر ہاو
تیلی سَخَر کَرِی آلَس تَے
یُس کرِ گونگُل سُے کَرِ کراو
اس کا مطلب ہے کہ ’’نفس ایک (غیر تربیت یافتہ) بیل کی مانند ہے۔ اس لئے اسے آرام (پیار) کے ساتھ ہل کے آگے باندھو۔ ساتھ ساتھ اسے رسی، چاقو اور چھڑی کا خوف بھی دلاتے رہو۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ وہ چلنا (زمین جوتنا) شروع کرے گا۔ (یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ) جو بوئے گا وہی فصل کاٹے گا!‘‘یعنی انسانی نفس کے اندر یہ امکانات رکھے گئے ہیں کہ وہ انسان کو دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح کی فصل کاشت کرکے دے گا۔ تاہم اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اسے انسانی عقل کا ہل جکڑ کے رکھے اور تقویٰ رسی، چاقو اور چھڑی بن کر اسے راہ راست سے ہٹنے نہ دیں۔ ظاہر ہے کہ اسی صورت میں یہ دل کی زمیں میں ایمان کا بیج بوئے گا، جو عمل صالح کا شجر سایہ دار بن کر انسان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہوگا۔
شیخ نور الدین ؒ اس حقیقت کا برملا اظہار فرماتے ہیں کہ نفس انسان کو شیطان کی طرح فقط سبز باغ دکھا سکتا ہے۔ یعنی جب تک انسان اپنے آپ کو نفس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا تب تک نفس اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ تاہم جونہی انسان اپنی لگام نفس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، نفس اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ شیخ فرماتے ہیں:
پَتہٕ پَتہٕ پوکُکھ نفسِ شیطانس
ہَے کَندِ پھورک پآنی پانسے
زآلی ڈبِہ بیہی بیہی بییِہ روبہٕ خانس
کھےکھے کھینُک اَماسٕنے
زِیُن زَن کآلی ہو لاگنَے دانَس
ہَے کَندِ پھورک پآنی پانسے
مطلب یہ کہ ’’تو (اے انسان) شیطان صفت نفس کے پیچھے چلتا رہا۔ اے بیوقوف! تو نے آپ اپنا نقصان کیا۔ (ظاہر ہے کہ نفس کے کہنے پر) تو نے محل نما عمارت اور اس کی شہ نشین (ڈب) پر آرام کرنا اپنا مقصد زندگی بنایا۔ ساتھ ساتھ تو نے لذیذ اور نفیس کھانوں کے پیچھے زندگی ضائع کر ڈالی۔ (اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ) تو ایک دن چولہے (جہنم) میں ایندھن کی طرح جلے گا۔ اے احمق! تو نے خود اپنے گھاٹے کا سودا کیا۔‘‘ یعنی نفس انسان کو صرف بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نفس انسان کو بسیار خور بناکے چھوڑتا ہے۔ یہ نفس کے دو ایسے مطالبات ہیں جو انسان کو سادہ لیکن با مقصد زندگی گزارنے کی مہلت ہی نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی مدت حیات کو لایعنی مصرفیات کی نذر کربیٹھتا ہے۔ نتیجتاً انسان جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ شیخ نور الدین رحمتہ اللہ علیہ نفس کشی اور ترک دنیا نہیں سکھاتے۔ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو حدود آشنا بنایا جائے۔ تاہم یہ اصول انہی تعلیمات پر مبنی ہیں جنہیں محمدؐ لیکر آئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ شیخ انسان کو شریعت محمدی پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں:
نفس چھیُ ونُک اَگہٕ زولی
نیریس نہٕ پٔٹ، کوٗٹ، منزولی
یٔمی کَڈِتھ اون گجِہ زولی
تمِی شرعِ محمّد پوولی
مطلب یہ کہ ’’انسانی نفس جنگل کی اس لکڑی کی مانند ہے جو صرف شاخوں کے گھُٹنوں (کشمیری، زول) اور گانٹھوں (کشمیری، اَگ) سے پر ہوتی ہے۔ (ظاہر ہے کہ اس سے) تختہ، شہتیر یا گہوارہ نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ جس نے اسے لاکر چولہے کی نذر کیا، اسی نے شریعت محمدّی کی اتباع کی۔‘‘یعنی انسان کا یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ وہ نفس کو بغیر تربیت کے کسی بڑے نصب العین کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ ضبط نفس کے بغیر کوئی چھوٹا یا بڑا مفید کام نہیں کیا جاسکتا۔ شدید نظم و ضبط کا پابند بناکر ہی نفس کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ انسان محمد ؐ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔
نفس کو شریعت کا پابند، حدود آشنا اور شدید نظم و ضبط کا عادی بناکر ہی انسان دنیا میں ایک اعلیٰ نصب العین اور بلند مقصد کا تتبع کرسکتا ہے۔ پاکیزگی کی یہی جستجو اس کے سینے کو تجلّیٔ الہٰی کا مہبط بنا سکتی ہے اور یہی تلاش اسے حقیقت الحقائق تک رسائی دے سکتی ہے۔ بقول شیخ نور الدین رحمتہ اللہ علیہ: ’’نَفس ییمی روٹ سُہ ووت لامکان!‘‘
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ9858471965