رجحان جاری رہا تو آئندہ دس برسوں میں اراضی کا نصف حصہ ختم ہو نے کا امکان: ماہرین
بلال فرقانی
سرینگر// وادی، جو کبھی چاول کی پیداوار کے حوالے سے خود کفیل سمجھی جاتی تھی، اب تیزی سے باغاتی اراضی یا نئی کالونیوں میں تبدیل ہورہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران وادی میں دھان کیلئے قابل کاشت اراضی میں 11ہزار ہیکٹر سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے، جس سے نہ صرف زرعی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ غذائی تحفظ پر بھی سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ سال 2020 میں وادی میں دھان کی کاشت 1,41,340 ہیکٹر اراضی پر ہوتی تھی، جو سال 2025 میں سکڑ کر محض 1,30,050 ہیکٹر رہ گئی ہے۔ اس طرح5 برسوں میں 11,290 ہیکٹر (تقریباً 2.25 لاکھ کنال) اراضی پر دھان کی کاشت نہ ہونے کی کمی واقع ہوئی ہے۔یہ کمی کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ سال 2012 میں کشمیر میں دھان کی کاشت 1,62,000 ہیکٹر رقبے پر ہوتی تھی، جو مسلسل کمی کے باعث اب 1.30 لاکھ ہیکٹر تک پہنچ چکی ہے۔محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013-14میں دھان کی کاشت 1,58,356 ہیکٹر اراضی پر کی جاتی تھی، جو 2014-15میں گھٹ کر 1,55,432 ہیکٹر رہ گئی۔ 2015-16سے 2019-20کے درمیان یہ مزید کم ہو کر 1,41,340 ہیکٹر تک پہنچ گئی۔ 2020-21اور 2021-22میں یہ رقبہ 1,34,067 ہیکٹر ریکارڈ کیا گیا، جبکہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اب محض 1,30,050 ہیکٹر تک محدود ہے۔ضلع بڈگام میں دھان کی کاشت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ سال 2020 میں یہاں 25,000 ہیکٹر رقبے پر دھان کاشت ہوتی تھی، جو 2025 میں گھٹ کر صرف 15,545 ہیکٹر رہ گئی ہے۔ اسی طرح ضلع کولگام میں دھان کی اراضی 16,000 ہیکٹر سے کم ہو کر 11,141 ہیکٹر رہ گئی ہے۔دوسری جانب چند اضلاع میں معمولی بہتری بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ پلوامہ میں دھان کی اراضی 16,500 سے بڑھ کر 16,808 ہیکٹر، اننت ناگ میں 24,500 سے بڑھ کر 25,056 ہیکٹر، کپواڑہ میں 17,000 سے بڑھ کر 17,308 ہیکٹر اور بانڈی پورہ میں 9,990 سے بڑھ کر 10,298 ہیکٹر ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرینگر، جو روایتی طور پر دھان کی بڑی پیداوار والا ضلع نہیں تھا، میں بھی دھان کی اراضی 2,630 سے بڑھ کر 3,195 ہیکٹر تک پہنچی ہے۔
زرعی ماہرین
تاہم ان معمولی اضافوں سے مجموعی کمی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تغیرات اور تعمیراتی سرگرمیوں نے اس بحران کو جنم دیا ہے۔ سرینگر کے مضافاتی علاقوںپادشاہی باغ، نٹی پورہ، نوگام، مہجور نگر، راولپورہ، اور نائیک باغ ،لسجن اورشالیمارمیں جو زمین کبھی لہلہاتے کھیتوں سے بھری ہوتی تھی، اب وہ رہائشی کالونیوں، سکولوں، تجارتی مراکز اور شو روموں میں تبدیل ہو چکی ہے۔اسی طرح سرینگر،بارہمولہ شاہراہ پر پارمپورہ سے نارہ بل تک جہاں کبھی سبز کھیتوں کے مناظر نظر آتے تھے، اب وہاں درجنوں تجارتی مراکز اور رہائشی بستیاں بن چکی ہیں۔ بڈگام اور گاندربل جیسے اضلاع میں بھی یہی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے، جہاں زرعی اراضی تیزی سے تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔محکمہ زراعت کے حکام نے بتایا کہ زمین کی منتقلی کی اصل نگرانی محکمہ مال کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، تاہم زرعی اعداد و شمار کے مطابق تعمیرات اور فصلوں کے تنوع کے باعث زیر کاشت رقبے میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ماضی میں ہمارے پاس 1.46 لاکھ ہیکٹر دھان کی زمین تھی، جو اب گھٹ کر 1.30 لاکھ ہیکٹر رہ گئی ہے۔‘‘ زرعی سائنسدان ڈاکٹر بشارت اور ڈاکٹر فرحانہ جاوید کے مطابق اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ دس برسوں میں موجودہ دھان کی زمین کا نصف حصہ ختم ہو سکتا ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ’’کئی کسان اب زیادہ منافع بخش فصلوں، جیسے ہائی ڈینسٹی سیب اور دیگرفصلوں کی طرف جا رہے ہیں، جس سے دھان کی کاشت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔‘‘دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ کاشت شدہ زمین کم ہوئی ہے، لیکن فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق سال 2012-23میں فی ہیکٹر پیداوار 38.03 کوئنٹل تھی جو 2021-22میں بڑھ کر 72.01 کوئنٹل تک پہنچ گئی ہے۔انکا کہنا ہے کہ اگر زرعی اراضی کی مسلسل تباہی کو نہ روکا گیا تو کشمیر میں نہ صرف تھوڑی بہت رہ گئی غذائی خود کفالت ختم ہو جائے گی بلکہ ماحولیاتی توازن، ثقافتی ورثہ اور دیہی روزگار بھی شدید متاثر ہوگا۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت، غیر قانونی تعمیرات اور ناقص زرعی پالیسیوں نے وادی کے ’’چاول کے پیالے‘‘ کو خشک کر دیا ہے۔ اگر فوری پالیسی مداخلت نہ کی گئی تو کشمیر کا یہ زرعی ورثہ مستقبل قریب میں محض ایک یاد بن کر رہ جائے گا۔