محمد عرفات وانی
ادب اور تہذیب کی تاریخ میں ایسے نام ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے فن و ہنر سے نہ صرف اپنی دھرتی کو روشن کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لئےبھی رہنمائی کے چراغ جلائے۔ جموں و کشمیر کی سرزمین بھی اس اعتبار سے کسی سے کم نہیں۔ یہاں کے برف پوش پہاڑ، سرسبز وادیاں، بل کھاتے دریا اور ہوا کی سرگوشیاں ہمیشہ اہل دل اور اہل قلم کو تخلیق کے لیے آمادہ کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دھرتی ہمیشہ بڑے بڑے شعرا اور ادبا کی جنم بھومی رہی ہے۔
اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو اس خطے نے ایسے ادبی گوہر پیدا کئے جنہوں نے اردو ادب کی تاریخ میں لازوال نقوش چھوڑے۔ برصغیر کے کلاسیکی ادب میں مولانا انور شاہ کشمیری کی علمی گہرائیاں، غلام احمد مہجور کی شاعری کا باغ و بہار، رسول میر کی غزلوں کا رومانی رنگ اور شبیر احمد شال کی ادبی بصیرت آج بھی زندہ ہے۔ ان کے بعد آنے والے کئی شعرا و ادبا نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا۔ اردو ادب کی روشنی جموں و کشمیر سے کبھی مدھم نہ ہوئی بلکہ ہر دور میں ایک نیا ستارہ طلوع ہوتا رہا، جس نے اپنی ضیا سے دنیا کو منور کیا۔ انہی درخشاں ستاروں میں ایک نمایاں نام ہے غنی غیور، جنہیں دنیا عبدالغنی جاگل کے نام سے بھی جانتی ہے۔
غنی غیور محض شاعر نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت اور صاحب بصیرت ادبی شخصیت ہیں۔ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی، نقاد بھی اور تنقید نگار بھی۔ مگر ان کی اصل پہچان شاعری ہے، وہ شاعری جو دل کی گہرائیوں سے جنم لے کر قاری کے دل پر براہِ راست دستک دیتی ہے اور احساسات کی وہ دنیا قائم کرتی ہے جس میں جذبوں کی حرارت بھی ہے، فکر کی رفعت بھی اور احساس کی لطافت بھی۔ جب وہ غزل کہتے ہیں تو ہر شعر دل کی دھڑکن بن جاتا ہے اور جب افسانہ تحریر کرتے ہیں تو کردار اس طرح زندہ محسوس ہوتے ہیں جیسے قاری کی آنکھوں کے سامنے سانس لے رہے ہوں۔غنی غیور کی شاعری محض تخیل کی پرواز نہیں بلکہ زندگی کے مشاہدات، تجربات اور انسانی جذبات کی آئینہ دار ہے۔ ان کے کلام میں عشق کی تپش بھی ہے، غم کی سچائی بھی اور امید کا وہ سکون بھی جو دل کو حوصلہ بخشتا ہے۔ ان کی غزلوں میں روایت کی خوشبو بھی ہے اور جدت کی تازگی بھی۔ یہی فنی توازن انہیں اردو ادب کے ممتاز ناموں میں شامل کرتا ہے۔ وہ ماضی کی روایت سے جڑے رہتے ہوئے حال کی دھڑکن اور مستقبل کی روشنی کو اپنی شاعری میں سمو دیتے ہیں، اور یہی ان کا سب سے بڑا ادبی کمال ہے۔
تنقید اور تحقیق کے میدان میں بھی ان کی کاوشیں نمایاں اور وقیع ہیں۔ ان کی تحقیقی کتب ’’سعدی سخن و قلم‘‘ (سعدی شناسی) اور ’’محیط ِ بے ساحل‘‘ (بیدل شناسی) کلاسیکی شخصیات پر گہری نظر اور جدید تناظر کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ یہ دونوں کتب اردو تنقید و تحقیق کے سرمایہ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ غنی غیور صرف تخلیق کار نہیں بلکہ ایک سنجیدہ محقق اور گہری بصیرت رکھنے والے نقاد بھی ہیں۔افسانہ نگاری میں بھی وہ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ حکایتِ نیم شب (2016) اپنی انفرادیت، فکری گہرائی اور تخلیقی جدت کے باعث اہلِ ادب کی توجہ کا مرکز رہا۔ ان کے افسانوں کے کردار جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں اور قاری ان کی زندگی کے دکھ سکھ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور دل سے محسوس کرتا ہے۔
شاعری کے میدان میں غنی غیور نے کئی اہم اور دلکش مجموعے تخلیق کیے ہیں۔ ان کی تازہ ترین تخلیق ’’سلگتا صحرا‘‘ (فروری 2025) میں شامل 120 غزلیں محض اشعار نہیں بلکہ جذبات و احساسات کی ایک مکمل کائنات ہیں۔ یہ مجموعہ قاری کو ایسے صحرا کی سیر کراتا ہے جہاں تپش بھی ہے، روشنی بھی اور سکون کے نخلستان بھی۔ ہر شعر قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں دل کی تڑپ، امید کی کرن اور زندگی کی حقیقتوں کی جھلک موجود ہے۔اُن کی دوسری تازہ تخلیق ’’غزلیاتِ غنی غیور‘‘(اپریل 2025) روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے، جس میں درد کی گہرائی بھی ہے اور سرور کی لطافت بھی۔ یہ مجموعہ نہ صرف شعری مہارت کی مثال ہے بلکہ دل و دماغ پر اثر انداز ہونے والی تخلیق ہے۔ دونوں کتابیں دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئیں اور ان کی ادبی شہرت کو بام عروج تک پہنچا دیا۔چند منتخب اشعار ان کی شاعری کی روح کو آشکار کرتے ہیں: ؎
کانٹوں میں یہ گلاب عجب اتفاق ہے
اِک تازہ انقلاب عجب اتفاق ہے
آنسوؤں کو روکتا ہوں دیر تک
دُھند میں کیا دیکھتا ہوں دیر تک
وہی جو سوکھ گئے باغ کے شجر تھے مرے
ہوئے ہیں عیب ابھی جو کبھی ہنر تھے مرے
خواہشوں کی عمر تھی کتنی غیور
دو گھڑی ملتے ملاتے بھی تو کیا
یہ اشعار محض لفظوں کا سلسلہ نہیں بلکہ دل کی دھڑکنیں ہیں، درد کی تپش اور امید کی کرنیں ہیں، ان میں کرب بھی ہے، حوصلہ بھی اور ایک نئے عزم کی روشنی بھی۔
غنی غیور کی اصل عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اردو ادب کو نئی نسل کے لیے جاذبِ نظر، سہل اور دلکش بنایا۔ ان کی تحریروں میں روایت کی خوشبو ہے اور عہدِ حاضر کی دھڑکن بھی۔ وہ اس حقیقت کے روشن استعارہ ہیں کہ اردو زبان صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ حال اور مستقبل کی رہنمائی کرنے والی روشنی ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ غنی غیور کی تخلیقات محض ادب کا حصہ نہیں بلکہ رہنمائی کے چراغ ہیں جو آنے والی نسلوں کے دلوں کو ہمیشہ روشن کرتے رہیں گے۔ ان کا نام اردو ادب کی تاریخ میں ایک درخشاں ستارے کی طرح زندہ و تابندہ رہے گا، جو اپنی روشنی سے قلوب کو منور کرتا رہے گا اور آنے والے زمانوں کو جمالیاتی ذوق اور فکری رفعت عطا کرتا رہے گا۔
[email protected]