سبزار احمد بٹ
کتاب ’’قدرت کے شہکار نظارے‘‘جناب عبدالودود انصاری صاحب کا ایک یادگار علمی و ادبی کارنامہ ہے۔مصنف کے والدگرامی کا نام عبدالحکیم اور والدہ کا نام شہزادی خاتون ہے۔ عبدالودود انصاری 12 ستمبر 1957 کو نورانی مسجد، مغربی بنگال میں پیدا ہوئے۔عبدالودود صاحب پیشے کے اعتبار سے ریاضی کے ایک ماہر اور بہترین استاد رہ چکے ہیں۔ ریاضی میں مہارت کے ساتھ ساتھ انہیں ادب و شاعری سے بھی گہرا شغف ہے۔ جیسا کہ مشہور ریاضی دان کارل تھیوڈور نے کہا تھا:
“It is true that a mathematician who is not also something of a poet, will never be a perfect mathematician.”
(یقیناً وہ ریاضی دان جو کچھ نہ کچھ شاعر نہ ہو، وہ کامل ریاضی دان نہیں ہو سکتا۔)
یہ قول عبدالودود انصاری پر بالکل صادق آتا ہے، کیونکہ وہ سائنسی ذہانت کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق سے بھی مالامال ہیں۔ ان کی تحریروں میں جگہ جگہ اشعار کے ذریعے اپنی بات کو نہایت دل نشیں انداز میں مضبوط کیا گیا ہے۔آپ پچھلے چالیس سال سے لگاتار لکھ رہے ہیں ۔ان کی چند کتابیں ہندوستان کی اولین کتابیں ہیں جیسے: 1۔’’آئو سائنسی خط لکھیں‘‘۔ 2۔’’آئوسائنسی خط لکھیں‘‘۔ دونوں کتابوں کوقومی کونسل نے شائع کی ہے۔یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر کی اولین کتابیں ہیں جن میں بچوں کو مکتوب نگاری کے ذریعے سائنسی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔اسی طرح3۔’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات‘‘۔4۔’’ہندوستان میں بچوں کا سائنسی ادب اور ادیب‘‘(آزادی کے بعد تاحال) بھی ہندوستان کی اولین کتابیں ہیں۔میں اگرچہ میں خود سائنسی یا ریاضیاتی پس منظر نہیں رکھتا، مگر یہ کہنا بجا ہوگا کہ ’’قدرت کے شہکار نظارے ‘‘ جیسی سائنسی کتاب میں جتنی ادبی چاشنی پائی جاتی ہے، وہ اسے محض ایک سائنسی تصنیف نہیں بلکہ ایک ادبی تخلیق بھی بنا دیتی ہے۔
عبدالودود صاحب نے اس سے قبل بھی کئی علمی و سائنسی موضوعات پر گراں قدر تصانیف پیش کی ہیں، جن میں
’’مسلمانوں کی سائنسی پسماندگی‘‘، ’’سانپ کوز‘‘،’’ کیڑا کوز‘‘، ’’ہندوستانی خواتین‘‘، ’’فلک کوز‘‘ اور دیگر کئی کتابیں شامل ہیں۔ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی اہم ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے، جن میں:شیروانی ایوارڈ، معلمِ علم دوست ایوارڈ، فیضانِ اشرف ایوارڈ، ادبی منچ ایوارڈ اور مولانا آزاد ایجوکیشنل ایوارڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مصنف دو درجن کے قریب انعامات اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ تمام اعزازات ان کی محنت، لگن، علم دوستی، ادب پرستی اور سائنسی بصیرت کے روشن ثبوت ہیں۔کتاب ’’قدرت کے شہکار‘‘ دراصل قدرتی مظاہر پر لکھی گئی ایک سائنسی تصنیف ہے۔ مصنف نے اس میں سمندر، جھیل، پہاڑ، جھرنے، جزیرے، دریا، ریگستان، جنگلات، ڈیم، لہر، شبنم، گلیشر، آتش فشاں، قوسِ قزح، طوفان وغیرہ جیسے قدرتی مناظر کو نہایت باریک بینی سے دیکھا، پرکھا اور سائنسی زاویے سے ان کا تجزیہ کیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے محض سائنسی پہلو بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بھی ان مظاہر کا ذکر کیا ہے، جس سے ان کی تحریر علم و ایمان کا حسین امتزاج بن گئی ہےکتاب کا پہلا مضمون ہے ’’ملنا ہے تو سمندر سے ملیے‘‘۔اس میں سب سے پہلے قرآنِ کریم کی ان آیات کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں پانی کی اہمیت بیان ہوئی ہے، مثلاً:
’’اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔‘‘ (الانبیاء:30)۔’’اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔‘‘ (النور:45)
مصنف نے سمندر کے بارے میں پچاس سے زائد نکات بیان کیے ہیں، جو سائنسی طلبہ کے لیے بے حد مفید ہیں۔اسی طرح دوسرا مضمون ’’چلنا ہے تو جھیل کے کنارے چلئے‘‘ میں جھیلوں کی اقسام، ان کی ساخت اور قرآنی حوالے نہایت سلیقے سے بیان کیے گئے ہیں۔تیسرا مضمون ’’چلیے پہاڑ پہ چلتے ہیں‘‘ پہاڑوں کی اہمیت، اقسام اور سائنسی و مذہبی پہلوؤں پر مبنی ہے۔مصنف نے یہاں قرآن کے ساتھ ساتھ شعرا کے اشعار سے بھی مضمون کو جاذبِ نظر بنایا ہے، جیسے:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
محبت میں کٹھن راستے بہت آسان لگتے ہیں
پہاڑوں پر سہولت سے چڑھا کرتے تھے ہم دونوں
اسی طرح اقبال کا شعر:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ان اشعار نے تحریر میں روح پھونک دی ہے۔
پہاڑوں کے ضمن میں جبلِ اُحد اور کوہِ طور جیسے مقدس پہاڑوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسی طرح مضمون ’’چلیے جھرنوں کے گیت سنتے ہیں‘‘میں جھرنوں کی قرآنی و سائنسی تفصیلات، ہندوستان اور دنیا بھر کے مشہور جھرنوں کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔کتاب میں جنگلات کی افادیت، انواع و اقسام، اور عالمی سطح پر ان کی تقسیم پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔
اسی طرح آئس برگ، ڈیم، قوسِ قزح، آتش فشاں، گلیشر، شبنم وغیرہ جیسے مظاہر فطرت پر بھی سائنسی و اسلامی زاویے سے بحث کی گئی ہے۔اس ان تمام چیزوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ آتش فشاں اصل میں کیا ہے، یہ کیسے بنتے ہیں آتش فشاں کی کتنی قسمیں ہیں ۔ اسی طرح سے زلزلوں کے بارے میں بھی مدلل اور مفصل جانکاری دی گئی ہے۔ہر مضمون میں اشعار کو حسبِ موقع استعمال کر کے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھا گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے ’’سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘‘ — یعنی مختصر مگر جامع انداز میں پوری کائنات کی سیر کرائی ہے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ ’’قدرت کے شہکار‘‘عبدالودود انصاری صاحب کا ایک عظیم علمی و ادبی کارنامہ ہے۔یہ کتاب نہ صرف سائنس کے طلبہ کے لیے سودمند ہے بلکہ عام قاری کے ایمان کو بھی تازہ کرتی ہے اور انسان کو سائنس اور خالقِ کائنات کی نشانیوں پر غور و فکر کی ترغیب دیتی ہے۔یہ کتاب یقیناً مصنف کے ذوقِ مطالعہ، علم دوستی اور خداداد مشاہداتی صلاحیتوں کی بھرپور عکاس ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ کوئی سائینس کے ان موضوعات کو اس تفصیل کے ساتھ کیسے لکھ سکتا ہے، وہ بھی ادبی چاشنی کے ساتھ ۔ جگہ جگہ پر اشعار کا استعمال بھی قاری کی دلچسپی کا سبب بنتا ہےاس کتاب کو بجا طور پر عبدالودود انصاری صاحب کا شہکار کہا جاسکتا ہے ۔یہ کتاب مصنف سے براہ راست حاصل کی جا سکتی ہے۔
رابطہ۔7006738436
[email protected]