ریحانہ شجرؔ
ہماری ادبی تاریخ میں بھدرواہ کے کئی قدآور اور بلند پایہ قلکار حضرات اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔ جن میں عبدالقدوس، رساجاودانی، بشیر بھدرواہی وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی اسی قافلے کے روحِ رواں ہیں ۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی 3مئی کو1942 بھدرواہ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔ بنیادی تعلیم مقامی سکول میں ہوئی۔ بعد میں انہوں نے ایم بی بی ایس، کی ڈگری پٹیالہ، پنجاب سے حاصل کی۔ پیشے سے معالج ہونے کے باوجود ذوقِ ادب نے انہیں قلم اٹھانے کےلیے اکسایا اور 1990 سے باقاعدہ افسانے لکھنے شروع کئے ، جو ملک کے مختلف رسائل و جراید میں تواتر سے شایع ہوچکے ہیں۔ ان کے ادبی سرمائے میں افسانوی مجموعہ “چبھن” اور تمثیل و احادیث پر آٹھ سے زائد کتابچے شامل ہیں۔ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی دینی فکر رکھنے والے بااخلاق ، خاموش، پروقار شخصیت کے حامل ہیں۔پیش نظر افسانوی مجموعہ ’’جلتا گلاب‘‘ اسی کثیرالجہت شخصیت کا تخلیقی شاہکار ہے۔ افسانوں کا یہ مجموعہ لگ بگ پچاس کے قریب افسانوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں شامل ہر افسانہ اخلاقی، جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کا آئینہ دار ہے۔افسانوی مجموعے کو ولی محمد اسیر کشتواری نے ترتیب دیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ ایک معروف محقق، سکالر ، نقاد، سیاست دان اور تاریخ دان شخصیت محمد یوسف ٹینگ نے لکھا ہے ۔وہ یوں تحریر کرتے ہیں :’’ ڈاکٹر مجید کی ذات میں کچھ گوناگوں مگر خوشگوار صفات کا توازن پایا جاتا ہے۔ وہ ایک اچھے طبیب ہیں۔ ایک بہت عمدہ نثرنگار ہیں۔ جس کی عبارتیں صاف، شستہ رواں اور کبھی کبھی بہت فصاحت مآب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک مرد شریف و لطیف ہی نہیں بلکہ ایک پاک سیرت اور پارسا شخص ہیں۔ زیرنظر مجموعہ پڑھ کر قاری اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ انسانی نفسیات پر ان کی نظر گہری ہے۔‘‘اس کتاب پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے رومانی فکشن کے شاہ، میری مراد نور شاہ لکھتے ہیں : ’’ان کے افسانوں کے مختلف روپ ہیں۔ مختلف رنگ ہیں، مختلف انداز ہیں۔ یہ رنگ یہ روپ خوبصورت ہیں اور بدصورت بھی ۔ مقامی بھی اور غیر مقامی بھی۔ اپنے ہیں اور پرائے بھی۔ زندگی کے قریب ہیں اور زندگی سے دور بھی۔ آس پاس بکھرے بکھرے حالات و واقعات کو اپنے افسانوں میں سمیٹنا ڈاکٹر صاحب کو خوب آتا ہے۔‘‘نامور نقاد، ادیب اور فکشن نگار ڈاکٹر ریاض توحیدی ، ڈاکٹر عبدالمجید کے افسانوں کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں۔’’افسانہ یا شاعری کا کوئی بھی موضوع ہوسکتا ہے لیکن اصل مسٔلہ فنکاری کا ہوتا ہے۔ کئی لوگ افسانے میں اصلاحی پیغام کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ مسٔلہ یہ ہے کہ جب ادب کو ‘سماج کا آئین کہا جاتا ہے۔ اس میں اصلاحی پہلو بھی تو شامل ہے۔ اب اگر افسانے میں اصلاحی یا اخلاقی پیغام یا مقصدی پہلو سامنے آتا ہے، اس کو اصلاحی ادب میں شمار کیا جاسکتا ہے البتہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہے کہ وہ فکشن کے بجائے ناصحانہ یا واعظانہ تحریر نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے افسانے متنوع موضوعات پر تخلیق ہوئے ہیں۔ جن میں نفسیاتی، سماجی ، اصلاحی اور معاشی وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔‘‘
قاری یا تنقید نگار ڈاکٹرعبدالمجید کے فنی محاسن و معائب پر بحث کر سکتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی تحریر حرف آخر نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ حقیقت کون جھٹلا سکتا ہے کہ مصنف اپنی علمیت،ادبی مہارت اور معیار کے لحاظ سے قابل تحسین کام کررہےہیں۔
مصنف موروثی ادیب نہیں ہے،بلکہ ان کا ادب سے رشتہ محض والہانہ عقیدت کا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ان کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ہے۔ اس کا پہلا افسانہ ’’ میرے محبوب‘‘ کہانی کے ساتھ عنوان کے اعتبار سے دلچسپ ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار عادل یونیورسٹی کا طالب علم فلموں کا دیوانہ ایک ہی فلم کئی بار دیکھنے کا عادی۔جس نے اپنی پسندیدہ فلم میرے محبوب تیرہ بار دیکھی ہوتی ہے۔ فلم کا ایک سین عادل کے ذہن پر اس قدر حاوی ہوجاتا ہے اور وہی سین عشق کی بازی جیتنے کےلیے آزمانے کی ٹھان لیتا ہے۔ جب ایک ناظمہ نام کی لڑکی کلاس کی طرف بڑھتی ہے۔ تو عادل موقع غنیمت جان کر اس کو ہلکی سی ٹکر لگا دیتاہے۔ ناظمہ کی کتابیں بکھر جاتی ہیں لیکن عادل کو جس کی امید تھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ناظمہ اپنی کتابیں سمیٹ لیتی ہے۔ اور کھڑے ہوتے ہی عادل پر برس پڑتی ہے۔’’اندھے ہوگئے ہو ، نظر نہیں آتا،بدمعاش کہیں کے۔ نکالوں چپل، کروں تمہارا دماغ ٹھیک؟‘‘عادل بھاگ جاتا ہے، اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناظمہ سے منہ چھپائے پھرنے لگتا ہے۔ آگے چل کر اس کی شخصیت میں بدلائو آتا ہے۔ آخر والد کی مداخلت سے دونوں کی شادی طے پاتی ہے۔ مثبت اختتام کہانی کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔
دوسرے افسانے کا عنوان ’’کیچڑ میں کھلا کنول‘‘ ہے۔ کہانی کے عنوان سے ہی پتہ چلتا ہے کہ معاشرے کے ایک بدنما چہرے کی عکاسی مصنف نے اپنے مخصوص انداز میں کی ہے۔ کہانی میں شانو، نامی لڑکی فوت شدہ گھریلو نوکر جوڑے کی بیٹی ہوتی ہے اور از راہ انسانیت سیٹھانی اس بے سہارا بچی کو سہارا دیتی ہے۔ اس کا بیٹا، وکرم اور شانو ایک ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہوجاتے ہیں ۔ آخر کار جوان ہونے کے بعد وہی بھول کر بیٹھتے ہیں، جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سیٹھانی نے اپنی بیٹے کو بچانے کےلیے شانو کو ناری نکیتن کے سپرد کروایا ۔ اپنی ساس کا منگل سوتر بھی دیا تاکہ ناری نکیتن والے شانو کو بیوہ اور بےسہارا سمجھیں۔ ناری نکیتن میں چند مہینوں کے بعد شانو بیٹے کو جنم دیتی ہے، جس کا نام کنول رکھا جاتا ہے۔ جب کنول کو سکول میں داخلے کی باری آتی ہے۔ باپ کا نام نہ ہونے کی وجہ سے کنول سکول میں داخلہ نہیں ملتا۔ کنول کئی بار شانو کو باپ کا نام پوچھتا ہے لیکن وہ ٹال دیتی ہے۔ آخر کرواچوتھ کے دن وہ فاقے سے تھی۔ سیڑھیوں گرکر سر پر شدید چوٹ لگنے سے ہسپتال میں دم توڑ دیتی ہے ۔ لیکن مرنے سے پہلے وہ بیٹے کنول کو حویلی کا پتہ دیتی ہے۔ جس کا مالک اب کنول کا باپ وکرم ہوتا ہے۔ ساتھ میں منگل سوتر اور وکرم کی دی ہوئی انگوٹھی کنول کے حوالے کرتی ہے۔اس طرح کنول اپنے باپ سے آخرکار ملتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کے افسانے اکثر مثبت انجام پر مُنتَج ہوتے ہیں ۔ جو افسانے کی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ہر افسانے کے بارے میں تفیلاً بات کرنا مبصر کےلئے ممکن نہیں ہوتا۔ ان کےباقی افسانے جیسے ’’آخری تمنا‘‘، ’’ مقدر‘‘، ’’اصلیت‘‘، ’’جاگتی آنکھوں کا خواب‘‘،’’ خاموشی کی زبان‘‘،’’بھول کسی کی سزا کسی کو‘‘ وغیرہ افسانوں میں اس معاشرے کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ جس سے مصنف کی ادبی بصیرت اور سماجی شعور کا انداذہ لگایا جاسکتا ہے۔
کہتے ہیں جو ایک عام آدمی پوری زندگی میں تکلیف دیکھے ۔وہ کبھی کبھی ایک باضمیر ڈاکٹر ایک رات میں آئی ۔ سی ۔ یو ۔ میں دیکھ لیتا ہے۔ جتنا درد لے کے ڈاکٹر شام کو گھر جاتے ہیں اس کا اندازہ ایک عام آدمی کو نہیں ہوتا۔ معالج ہونے کے ناطے ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی نے بھی زندگی کو اور قریب سے دیکھا ہے۔بہت ساری کہانیاں روز ان کےمشاہدے میں ضرور آتی رہی ہونگی۔ جس کی جھلک ان کے افسانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے تحریر کردہ افسانے ’’جلتا گلاب‘‘ میں نظر آتی ہے۔ کہانی ایک بے حد خوبصورت عورت اوشا کے بارے میں ہے۔ جس کے کمال حسن کو مصنف نے یوں تحریر کیا ہے۔’’اس کی ریشمی زلفیں جب اس کے چہرے پر بکھرنے لگتیں تو یوں محسوس ہونے لگتا کہ اللہ میاں نے دن رات کی گردش گویا اس کے قدموں میں ڈال کر رکھ دی ہے۔‘‘
اس کے شوہر جذام کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ بیماری کی وجہ جس کی شکل بھدی ، ڈراونی اور ناک پچک چکی، انگلیاں آدھی سے زیادہ گل کر گر چکی تھیں ۔ مفلسی،بیماری اور نامساعد حالات کے چلتے گزر بسر مشکل ہورہی تھی۔ دونوں میاں بیوی علاج کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جاتے لیکن جب وہ کسی ڈاکٹر یا حکیم سے ملتے تو وہ گھنشام کا علاج کرنے کے بجائے اوشا کی طرف متوجہ ہوجاتا اور اس کے چھریرے جسم کی بناوٹ اور خدوخال میں کھو جاتا۔ وہ حیا کے مارے کانپنے لگتی۔ ڈاکٹروں کے پاس جاکر اکثر یہی رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔ حالات سے تنگ آکر اوشا نے فیصلہ لیا۔ اسی موذی مرض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس گئی جو چند روز پہلے ہی شہر میں آیا ہوا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہے۔’’ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس ایسی کوئی دوائی ہے۔‘‘
ہاں بیٹی ( ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا) اور گھنشام کی طرف نظر ڈالی۔ کیوں نہیں نئی نئی دوائیاں ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں!
نہیں ڈاکٹر صاحب ! اوشا نے کہا !. ’’میں ان کا (اپنے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) علاج نہیں کروانا چاہتی ہوں ۔ میں ایسی دوائیوں کی تلاش میں ہوں، جسے مجھے یہ بیماری لگ جائے۔تاکہ دنیا والوں کی بھوکی نظریں مجھ پر نہ اٹھیں، جن میں آپ سبھی لوگ شامل ہیں !‘‘
مجموعی طور یہ کتاب اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کا یہ افسانوی مجموعہ قارئین میں مقبولیت اور توجہ حاصل کرے گا۔
مضمون کا اختتام شہرہ آفاق شاعرہ ، ادا جعفری کے اس شعر پر کرتی ہوں ؎
میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا !