عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/چودھری محمد رمضان نے کہا ہے کہ آنے والے راجیہ سبھا انتخابات محض سیاسی تقویم کا ایک معمولی باب نہیں بلکہ یہ ہمارے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وقار، جمہوریت اور جموں و کشمیر کے عوام کی اُس آواز کی بحالی کی لڑائی ہے جو طویل عرصے سے دبائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتخاب صرف نشستوں کی دوڑ نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ان پالیسیوں پر عوامی فیصلہ ہے جنہوں نے جموں و کشمیر کے عوام کو منظم انداز میں بےاختیار کیا، ریاستی درجہ ختم کیا اور آئینی شناخت چھین لی۔
رمضان نے کہا کہ ترقی کے نام پر دھوکہ بیچا گیا، اور جمہوریت کے پردے میں آمرانہ طرزِ حکومت کو فروغ دیا گیاـ
انہوں نے کہا کہ 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر کو بھارت کے ایک شراکت دار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک تجربہ گاہ کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے، جہاں بیوروکریسی کی حکمرانی ہے، عوامی نمائندگی چھین لی گئی ہے اور وقار کو پامال کیا گیا ہے۔
چودھری محمد رمضان نے کہا کہ اسمبلی انتخابات نے پہلے ہی عوامی جذبات کا اظہار کر دیا ہے ـ فرقہ وارانہ سیاست، جھوٹے وعدوں اور مصنوعی بیانیوں کو عوام نے یکسر مسترد کیا۔
انھوں نے کہا کہ اب راجیہ سبھا انتخابات کے ذریعے ہمارے پاس ایک اور موقع ہے کہ اس عوامی جذبے کو پارلیمانی طاقت میں بدل کر قومی سطح پر اپنی آواز کو مضبوطی سے پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتخاب اس بات کی جدوجہد ہے کہ جو کچھ ہم سے چھینا گیا، اسے واپس حاصل کیا جائے ہماری ریاستی حیثیت، ہمارا وقار، ہمارا خصوصی درجہ، ہمارے حقوق اور بھارت کی جمہوری ساخت میں ہمارا جائز مقام۔
“ہمیں نئی دہلی کو یہ باور کرانا ہے کہ جموں و کشمیر کی پہچان خاموشی سے نہیں بلکہ مزاحمت سے جانی جائے گی۔
چودھری رمضان نے مزید کہا کہ جمہوریت کا مطلب تسلط نہیں بلکہ مکالمہ ہے، “یہ اختلافی آوازوں کو دبانے نہیں بلکہ آگے بڑھانے کا نام ہے۔”
انہوں نے تمام جمہوری اور سیکولر قوتوں سے اپیل کی کہ وہ سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر جمہوریت اور ملک کی روح کے دفاع کے لیے متحد ہوں۔
“یہ سیاسی مفاد کی جنگ نہیں بلکہ اجتماعی بقا کی اخلاقی تحریک ہے۔ یہ راجیہ سبھا کی نشستوں کی بات نہیں، بلکہ بھارتی جمہوریت کی روح میں جموں و کشمیر کے مقام کی بات ہے۔”
راجیہ سبھا انتخابات نشستوں کی جنگ نہیں ہمارے ضمیر کا امتحان ہے: چودھری رمضان
