فکر انگیز
افتخار احمد قادری
آج انسان اپنی زندگی کے ہر موڑ پر پریشانی، اضطراب، محرومی اور بے اطمینانی میں مبتلا ہے۔ وہ اپنے ربّ کے حضور ہاتھ اٹھاتا ہے، آہ و زاری کرتا ہے لیکن محسوس کرتا ہے کہ اس کی دعائیں باب اجابت تک پہنچتی ہی نہیں۔ یہ کیفیت عام ہے زبان پر اکثر شکوہ ہوتا ہے کہ’’ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ دعا اسلام میں وہ عظیم عبادت ہے جو بندے کو براہِ راست خالق کائنات سے جوڑتی ہے۔ یہ بندگی کا نچوڑ، ایمان کی علامت اور روح کی غذا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘ (المؤمن: 60) نبی کریمؐ نے فرمایا:’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘ (ترمذی:2969)
مگر آج جب دعائیں کی جاتی ہیں تو اکثر وہ قبول نہیں ہوتیں۔ اس کی وجوہات محض ظاہری نہیں بلکہ باطنی، روحانی، اخلاقی اور اجتماعی بھی ہیں۔ دعا کا مطلب ہے اپنے آپ کو الله تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش کرنا، اپنی کمزوری کا اعتراف اور الله تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرنا۔ یہ بندے کے ایمان و یقین اور توکل کا امتحان بھی ہے۔ دعا کی قبولیت کے کئی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی شرط ایمانِ کامل اور یقینِ صادق ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اپنے ربّ کو عاجزی اور چپکے چپکے پکارو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الاعراف: 55)
دعا میں دکھاوا، غفلت یا بے حسی نہیں بلکہ عاجزی، گریہ و زاری اور اخلاص ضروری ہے۔ دعا اور عمل لازم و ملزوم ہیں صرف دعا کافی نہیں جب تک بندہ اپنے اعمال کو درست نہ کرے۔ دعائیں تب اثر کرتی ہیں جب ہم اپنے اعمال میں تبدیلی لاتے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’آدمی دعا کرتا رہتا ہے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ اس کا کھانا حرام، لباس حرام اور کمائی حرام ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم: 1015) ۔ آج ایک بڑی بیماری حرام ذرائع آمدنی کی ہے۔ جب پیٹ حرام سے بھرا ہو تو زبان سے نکلنے والی دعائیں باب اجابت تک نہیں پہنچتیں۔ آج دنیا کی محبت نے دلوں کو غافل، روح کو مردہ اور امت کو کمزور کر دیا ہے۔ بہت سی دعائیں بظاہر قبول نہیں ہوتیں مگر حقیقت میں الله تعالیٰ انہیں رد نہیں فرماتا۔ الله تعالیٰ یا تو دعا کو ویسے ہی قبول فرماتا ہے یا اس کے بدلے میں بہتر عطا فرماتا ہے یا آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیتا ہے۔ یہ ایمان کا درجہ ہے کہ بندہ اپنے ربّ کی حکمت پر راضی رہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں باب اجابت تک پہنچیں تو ہمیں اپنے کردار، نیت اور عمل کو درست کرنا ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دعاؤں سے پہلے اپنے دلوں کی اصلاح کریں، اپنے کردار کو سنواریں اور اپنی نیتوں کو خالص بنائیں۔ جب تک بندے کا ظاہر و باطن الله تعالیٰ کی رضا کے تابع نہیں ہو جاتا ،دعا محض زبان کی حرکت بن کر رہ جاتی ہے۔ دعا کا اثر تب ظاہر ہوتا ہے جب بندہ گناہوں سے توبہ کرے، حلال کمائی اختیار کرے، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف کھڑا ہو۔ دعا کے ساتھ عمل بھی لازم ہے کیونکہ عمل کے بغیر دعا تیر کے بغیر کمان کی مانند ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دعائیں پھر سے اثر لائیں تو اپنے کردار، اتحاد، ایمان اور محبت کو ازسرِنو زندہ کرنا ہوگا۔ جب دلوں میں بغض و نفرت کے بجائے اخوت و محبت پیدا ہوگی اور لوگ تفرقے اور حسد سے پاک ہوں گے تو پھر ایک ہی لب کی دعا عرش کو ہلا دے گی۔
[email protected]