حال و احوال
رشید پروینؔ سوپور
غزہ پٹی کی مکمل تباہی اور بربادی کے بعد ایک امن معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں ، لیکن یہ کس طرح کا معاہدہ ہے اور اس معاہدے سے مستقل اور پائیدار امن کے کتنے مواقع موجود ہیں ؟ اس معاہدے کو سمجھنے اور اس کو گہرائی کے ساتھ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے اور آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ اس معاہدے کے پس، منظر میں نسل کشی کا وہ دراز سلسلہ ہے ،جو دو برس سے زیادہ مدت پر محیط ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے پھر ایک بار امریکی سپورٹ اور تعاون سے اپنے اہداف کی طرف پھر ایک بڑی پیشقدمی کی ہے ،اس معاہدے پر شرم الشیخ مصر کے شہر میں جمعہ کے روزمصر ، قطر اور ترکیہ نے دستخط کئے ہیں ۔ترکیہ غزہ میںمعاہدے کے نقاط کی نگرانی کے لئے ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ اسرائیلی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فائر بندی دوپہر ۱۲بجے سے شروع ہوچکی ہے اور اس کی فورسز نے قیدیوں کے تبادلے اور سیز فائر کی شقوں کے مطابق اپنی حکمت عملی کی تعنیاتی کی ہے۔اس معاہدے کے مطابق اب غزہ کے جنوبی حصے کے درمیان شارع الرشید اور شارع الصلاح الدین کے راستے عام، شہریوں کی آمد ورفت کی اجازت دی گئی ہے ، اس معاہدے پر دستخط کے دوران حماس کاکوئی نمائندہ موجود نہیں تھا ، کیونکہ اس معاہدے میں یہ دو نقاط بھی شامل ہیں کہ معیاد مکمل ہونے کے ساتھ ہی حماس کے جنگجو ؤں کو غزہ چھورنا پڑے گا اور اس کے بعد امریکہ اور مصر غزہ کا حکومتی نظام تیار کریں گے،حماس نے ان شرائط کے ساتھ اتفاق نہیں کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود اپنی کمزوریوں اور امریکی طاقت اور اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے دباؤ میں اس معاہدے کو تسلیم کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ امریکی تعاون سے غزہ پٹی ایک تو کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے اور دوسری بڑی اہم بات یہ کہ اسرائیل نے سوچ سمجھ کر اپنی طاقت اور امریکی بل بوتے پر غزہ پٹی میں اب تک لاکھوں معصوم شہریوں کو کارپٹ بموں کا ہی نشانہ نہیں بنا یا تھا بلکہ تمام اطراف کا معاصرہ کر کے بھوک ،افلاس ، ادویات کی پابندی اور دوسرے انسانیت سوز جرائم کو بروئے کار لاکر اس دور کے سب سے بڑے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے اور اس پر آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ جسے کسی بھی طرح ایک نارمل انسان قرار نہیں دیا جاسکتا ، ہر دن گذرنے کے ساتھ ساتھ اس چھوٹی سی پٹی اور یہا ں کی مزاحمتی قیادت کوجہنم میں تبدیل کرنے کا ارادہ مسلسل دہراتے رہے ہیں ۔ اس معاہدے پر نتن یاہو نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم نے کسی بھی دباؤ کو رد کرتے ہوئے یہ معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کی رو سے ہم نے ایران حماس ، حزب اللہ اور دوسری مزاحمتی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کو نشانہ نہ بنانے کے دباؤ کو بھی قبول نہیں کیا ہے ، ہم نے حماس اور دوسری مسلح تنظیموں کو غیر مسلح کیا ہے اور ہم واضح کردیتے ہیں کہ جنگ ختم نہیں ہوئی اور ابھی بہت سارے چلینج باقی ہیں اور یہ کہ ہم نے حماس سے سارے کارڈس چھین لئے ہیں۔ اس بیان کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ ایک وقفہ ہے اور یہ وقفہ اس لئے اسرائیل کو چاہئے تھا کہ بین الاقوامی سطح پر وہ اکیلا بھی پڑ رہا تھا اور امریکہ کے اندر ٹرمپ کی مقبولیت بھی بڑی تیزی سے کم ہو رہی تھی اور اس سے اپنے ملک کے اندر بڑی مزاحمت کا سامنا ہونے جارہا تھا ، جنگ جاری ہے ، اس سے ایک وقفہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ترکیہ نے نقاط کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی ہے لیکن ان کے اپنے بیان سے جو اس موقعے پر انہوں نے دیا ہے وہ بھی کچھ زیادہ پر امید نہیں۔ رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ’’ اسرائیل کا ماضی معاہدوں کو توڑنے اور اپنے وعدوں سے انحراف کی ایک لمبی داستاں موجود ہے اور یہ کہ اسرائیلی جب چاہتے ہیں اور جس وقت بھی چاہتے ہیں معمولی و بے معنی وجوہات اور بہانے تراش کر اپنے کئے ہوئے وعدوں اور معاہدوں سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘ یہ ہزارو ںبرس سے ان کی روایت رہی ہے اور آج بھی وہ اسی روایت کے حامل ہیں ،حماس کے رہنما خلیلالحیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مزاحمتی قوتوں نے بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ کیا ہے، جس میں مستقل فائر بندی، قابض اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، رفح کراسنگ کے راستے انسانی امداد کی بحالی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔ ان کے مطابق معاہدے کے تحت ۲۵۰ عمر قیدی ۱۷۰۰ سو قیدی جو غزہ سے گرفتار ہوئے تھے اور ان کے ساتھ تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا ، ان الفاظ کا بغور جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم بات اور ہدف یہ نظر آتا ہے کہ مزید تباہی اور انسانی جانوں کی تلافی سے بچنے کا واحد راستہ ان کے لئے فی الحال یہ رہا ہے کہ بچے کھچے غزہ کے لئے خوراک ، ادویات اور دوسری زندگی کی لازمی ضروریات کو غزہ کے اندر رسائی حاصل ہو جائے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ۵۷ نام نہاد مسلم ممالک میں سے امریکہ اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف کسی کی زباں تک بھی نہ کھل سی اور مکمل دوسال وہ غزہ کی تباہی اور بر بادی کا تماشا بڑے سکون اور آرام سے دیکھتے رہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی پریشر اور دھمکیوں کے نتیجے میں جو بیس نقاطی معاہدہ مصر کے شہر میں ہوچکا ہے ، اس کا پلڑا ہر صورت میں اسرائیل ہی کی طرف بھاری ہوگا کیونکہ مصری حکومت نے السیسی کی قیادت میں منتخب صدر مرسی کو نہ صرف قید کیا تھا بلکہ س کا قتل بھی کیا تھا اور تب سے آرام کے ساتھ مصری تخت پر براجمان ہے اور قطر جو اس معاہدے میں شامل تھا ،پر اسرائیل نے امریکی حلیف اور وفادار ہونے کے باو جود حالیہ دنوں ہی جو ہلہ بول دیا تھا اور قطری حکمران امریکی پیر پکڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کر پائے تھے ، ادھر اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی پاور پاکستان امریکہ اور اسرائیلی قبلہ کی طرف پہلے سے سجدہ ریز ہے اور اس حد تک کہ عاصم منیر کی یہ رجیم ، امریکی تینوں شرائط تسلیم کر چکی ہے بلکہ اس سے آگے اپنی وفاداریاں دکھانے کے لئے تیار ہے ، ایٹمی ہتھیاروں سے دست برداری ، زمین میں دفن مینرلز اور اسرائیل کو تسلیم کرنا۔ یہ سب ایک فرد واحد عمران خان کی قید کے عوض دیا جارہا ، اس میں اب کوئی دو رائیں نہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا یہودی اپنے اس معاہدے کو سنجیدگی سے لے لیں گے اور اس پر عمل پیرا بھی رہیں گے کہ۔ نہیں؟ اس کے لئے ہمیں ان کے اصل اہداف اور ان کی منزل جہاں وہ پہنچنا چاہتے پر ایک نظر ڈالنی ہوگی ، کیونکہ کسی بھی بڑی منزل یا ہدف تک ایک دو جستوں میں پہنچنا کسی طرح ممکن نہیں ہوتا اور مناسب بھی نہیں ہوتا ، تو ہمیں اسرائیل کے ماضی میں جھانکنا ہوگا اور پھر ایک بار ۱۹۴۸میں وجود پانے سے اب تک کا ایک مختصر سا جائزہ لینا ہوگا ، تب آپ اچھی طرح سے اس منزل کو پہچان پائیں گے، جس سے پانے کی جستجو انہیں اپنے آخری انجام تک پہنچائے گی۔’’جس بستی کو ہم نے تباہ کردیا تھااس کے باشندوں پر پابندی ہے کہ وہ وہاں نہیں جا سکیں گے، جب تک یاجوج ماجوج نہ کھل جائیں اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں۔‘‘ (سورۃالانبیا)۔ ہم اس دور میں سانسیں لے رہے ہیں جب اپنی دو ہزار سالہ جلاوطنی کے بعد بنی اسرائیل ارض مقدس واپس لے چکے ہیں ،اُن کی اللہ کی طرف سے عائد کردہ جلاوطنی بظاہر ختم ہوچکی ہے ،کیونکہ یاجوج و ماجوج کے کھلنے کی خبر رسول اللہؐ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی دی تھی ، یرو شلم آج اسرائیلی قوت اور طاقت کا ہر لحاظ سے سے مرکز بنا ہوا ہے اور گہرا ئی سے سوچا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی مرضی اور منشا کا ورلڈ آرڈر تخلیق کر چکا ہے اور اس پر کامیابی سے سبک رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، حماص و حزب اللہ پشت بہ دیوار ہوچکے ہیں۔ اپنی شہادتوں اور اسرائیلی بمباری سے انتہائی کمزور ہوچکے ہیں، ایران بھی اس قابل نہیں کہ اسرائیل کی عسکری اور ایجنسیوں کا مقابلہ کر سکے ،اسرائیل نے کئی اہم شخصیات بشمول ایرانی صدر کا دن دھاڈے قتل کیا ، لیکن ایران کو کسی طرح فیس سیونگ کا جواز تلاش کرکے خاموش ہونا پڑا۔ اور اس تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ روس بھی مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر ورسوخ بر قرار نہیں رکھ پایا ہے کیونکہ نہ تو وہ اسرائیلی جارحیت کو روک سکا ہے اور نہ اس دوران کوئی خاص رول ہی ادا کر پایا ہے۔ حالیہ جنگ جس میں ایک طرف امریکی ، اسرائیلی اور یورپی یونین کی عفریتیں تھیں اور دوسری طرف صرف چند ہزار مجاہدین ،جو محض جذبہ جہاد سے سر شار تھے ۔اس جنگ کا انجام بہر حال متوقع بھی تھا اور معلوم بھی تھا ، ۴۸ ۱۹ میں صیہونی سازشوں کے نتیجے میں اسرائیل کو وجود بخشا گیا تھا اور وجود میں آنے سے پہلے بھی اسرائیلی ریاست کا جو خواب اور جو سبق صیہونیوں کو دیا جاتا رہا ہے، وہ گریٹر اسرائیل کا وجود ہے جس کی طرف اب صیہونیوں کا سفر بظاہر آسان لگتا ہے کیونکہ آس پاس کوئی مزاحمتی بڑی طاقت باقی نہیں رہی ہے جو اسرائیل اور امریکہ کا راستہ روک سکے۔ ٹرمپ کی صورت اسرائیل کو ایک غمگساراور رفیق ملا ہے جو کسی پردے کاقائل نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی پہلی ٹرم میں ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ یرو شلم منتقل کیا تھا اور اب کی بار اس دوسالہ یک طرفہ جنگ میں انہوں نے کبھی اسرائیل کا نہ ساتھ چھوڑا اور نہ اسلحہ کی سپلائی میں کمی ہی کی، یروشلم کی تقدیر جو احادیث کی روشنی میں اُبھر کر سامنے آتی ہے، اس سے مطابقت بھی رکھتی ہے ۔عرب ممالک اور عالم اسلام یہ بات سمجھ لیتا کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں صیہونی کسی بھی طرح کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، معاہدات اور کبھی کبھی بہ ظاہر امن و اماں کے دکھاوے بھی اسی منصوبے کا جز لائینفک ہیں۔ اللہ نے ان کے قلوب ، دل و دماغ پر مہر ثبت کی ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ان مسلم ممالک کی بصیرت اور بصارت بھی مقفل ہوچکی ہے تاکہ وہ بھی اس معتوب اور خود سر قوم کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچیں جو احادیث میں ان کے لئے پہلے ہی سے واضح ہے ۔