پرویز احمد
سرینگر // اسقاط حمل، حمل گرنے اور بے جان بچوں کی پیدائش سے جموں و کشمیر میں 8فیصد خواتین اپنے بچوں کو کھو بیٹھتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 5فیصد بچے اسقاط حمل سے جنم لینے سے قبل موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ کشمیر صوبے میں ماہر امراض خواتین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں 32فیصد شادہ شدہ جوڑوں کو کئی مرتبہ اسقاط حمل کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں تاخیر سے شادیاں ہیں جبکہ کچھ معاملات میں دائمی بیماریاں اور تھائراڈ اور شوگر بھی وجوہات بنتے ہیں۔پوری دنیا کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں 15اکتوبر کو ماں کی پیٹ میں جان گنوانے والے بچوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔کشمیر صوبے میں ہر سال اس حوالے سے کئی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اس سے نپٹنے کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی اسقاط حمل اور ماں کے پیٹ میں بچے مردہ ہونے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہر امراض خواتین نے بچوں کی ماںکے پیٹ میں اموات کی بڑی وجوہات میں تاخیر سے شادی یا کسی دائمی بیماری کو قرار دیا ہے۔ سکمز صورہ میں کئی گئی ایک تحقیق میں کشمیر صوبے میں 27فیصد جوڑوں کو ایک بار سے زیادہ اسقاط حمل سے گزرنا پڑا ہے۔ ماہرین نے ماں کے پیٹ میں بچوں کی فوتیگی کی وجوہات میں ایک سے زیادہ بار حمل گرنا، اسقا ط حمل کا سامنا کرنے والی خواتین میں 27فیصد ان شادی شدہ جوڑوں کی ہے جنہوں نے اپنے رشتے میں ہی شادی کی ہے۔ اس کے علاوہ 5فیصد ان خواتین کی ہے جو دائمی بیماریوں جیسے تھائراڈ، شوگر ، پی سی او ایس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق میں بتایا گیاہے کہ 27فیصد خواتین میں کم عمری کی وجہ سے جبکہ 27فیصد خواتین میں زیادہ عمر کی وجہ سے اسقاط حمل ہورہا ہے۔ ماہر امراض خواتین ڈاکٹر شگفتہ نبی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پی سی او ایس، موٹاپا، انفیکشن، شوگر اور تھائراڈ کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین اسقاط حمل کی شکار ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے علاوہ خواتین ہمیشہ شرم، سماج اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ذہنی پریشانوں کا شکار ہوکر حمل کھو بیٹھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی سی او ایس اور ہیضہ دانی کا ناکارہ ہونے سے بھی اسقاط حمل سے بچے ماں کی پیٹ میں ہی جان گنوابیٹھتے ہیں۔