بنیادی ڈھانچے میں موجود خلا کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:وزیراعلیٰ
سرینگر// وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کو سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کیلئے مزید پُرکشش مقام بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچے اور دیگر رُکاوٹوں کو دُور کرنے کے لئے اَپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان باتوں کا اِظہار انہوں نے سرینگر میں فیڈریشن آف اِنڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز ( ایف آئی اِی او)کے ساتھ ایک اِستفساری سیشن کے دوران کیا۔میٹنگ میں صدر ایف آئی اِی او ایس سی رالہن، نائب صدر شری کانت کپور، ڈِی جی اور سی اِی او اَجے سہائے، ریجنل چیئرپرسنوں، سابق صدور، بورڈ ممبران اور دیگر معززین نے شرکت کی۔سیشن میں جموں و کشمیر حکومت اور ہندوستان کی برآمداتی کمیونٹی کے نمائندوں کے درمیان ممکنہ اِشتراک کے مختلف مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیر اعلیٰ نے ایف آئی اِی او کے وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کا اَپنی بورڈ آف مینجمنٹ میٹنگ سرینگر میں منعقد کرنا جموں و کشمیر میں ’اعتماد کا ایک اہم ووٹ‘ ہے۔ اُنہوں نے کہا’’آپ کی موجودگی ہمارے لئے نہایت حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہے‘‘اور اُنہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر نے ہمیشہ ہندوستان کی تجارتی و برآمداتی کمیونٹی کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لئے حکومت کی جاری کوششوں کا خاکہ پیش کیا۔انہوں نے کہا’’یہ ایک شعوری کوشش ہے جس پر میری حکومت کام کر رہی ہے تاکہ ہم جموں و کشمیر میں زیادہ سرمایہ کاری اور صنعتی سرگرمیوں کو راغب کر سکیں۔ ہم اپنے بنیادی ڈھانچے میں موجود خلا کو دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔وزیرا علیٰ نے جموں و کشمیر کو درپیش جغرافیائی اور وسائل کی کمی جیسے منفرد چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی توجہ ان شعبوں پر ہے جہاں جموںوکشمیر کو موروثی فوائد حاصل ہیں۔ ان میں زراعت، باغبانی، دستکاری، فارماسیوٹیکل، آئی ٹی خدمات اور الیکٹرانکس شامل ہیں۔انہوں نے کاروباری ماحول پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اعتماد خطے کی صنعت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا’’اعتماد کاروبار کے لئے سب سے اہم عناصر میں سے ایک ہے اور بدقسمتی سے جموں و کشمیرکو گزشتہ 30 سے 35 برسوں سے اس سے محروم رکھا گیا ہے۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا،’’ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ یہ عدم اعتماد ہمارے مستقبل کی شناخت نہ بنے‘‘۔وزیر اعلیٰ نے مقامی معیشت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا’’ہمیںجتنے بڑے چیلنجوں اور کاروباری نقصانات کا سامنا ہے، اس کے باوجود ہماری معیشت بہتر طریقے سے ترقی کر رہی ہے۔ ہمارے اَپنے تخمینے کے مطابق ہماری جی ڈِی پی رواں برس 10 سے 11 فیصد کی شرح سے بڑھے گی۔‘‘انہوں نے حالیہ واقعات کے اِقتصادی اثرات بالخصوص سیاحت کو پہنچنے والے نقصان پر تشویش کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کے اثرات زراعت، باغبانی، دست کاری اور برآمدات کے شعبوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے جموں و کشمیر کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایم ایس ایم اِیز) اور اعلیٰ قدر مگر کم حجم والی صنعتوں کا مرکز بنایا جائے۔ اُنہوں نے بتایا کہ 1980 ء کی دہائی کے اواخر میں ملی ٹینسی سے قبل کشمیر ایک اُبھرتا ہوا ہائی ٹیک صنعتی مرکز تھا۔انہوں نے کہا’’ 1989 ء میں ملی ٹینسی شروع ہونے سے پہلے کشمیر نئی ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ صنعتوں کا مرکز بن رہا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ شعبے آج بھی بحالی کیلئے تیار ہیں‘‘۔انہوں نے صنعتی ترقی کی بحالی کے لئے کچھ اہم عوامل کی نشاندہی کی جن میں کم بجلی کے نرخ، تعلیم یافتہ نوجوان اَفرادی قوت اور سازگار پالیسی فریم ورک شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر کو پرخطر کاروباری مقام کے طور پر دیکھا جانا ایک مسئلہ ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔عمر عبداللہ نے ایک بار پھر ایف آئی ای او کے وفد کا شکریہ اَدا کیا اور کہا’’ یہاں آپ کی موجودگی ہمیں جموں و کشمیر کو ایک محفوظ مقام کے طور پر پیش کرنے میں مدد دیتی ہے‘‘۔