خطرات سے نمٹنے کیلئے مربوط منصوبہ بندی، عوامی شمولیت اور پالیسی تسلسل ناگزیر
بلال فرقانی
سرینگر//مہاجر پرندوں کے موقعہ پر عالمی دن پر کشمیر کی آبی پناہ گاہیںامسال بھی آنے والے لاکھوں مہاجر پرندوں کے استقبال کے لیے منتظرہیں۔ کشمیر کی آبی پناہ گاہوں میں حالیہ برسوں میں مہاجرپرندوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔امسال کے ایشیائی آبی پرندو کی سر شماری (اے ڈبلیو سی 2025) کے مطابق، وادی کی آبی پناہ گاہوں میں اس سال کے اوائل میں 13 لاکھ 43 ہزار 506 مہاجر پرندے 67اقسام سے تعلق رکھنے والے دیکھے گئے ، جو گزشتہ چھ برسوں کے دوران 65.28فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔2020 میں یہ تعداد 8 لاکھ 13 ہزار تھی جو بتدریج بڑھتے ہوئے اب 13لاکھ سے زائد تک جا پہنچی ہے۔ ایشیائی واٹر برڈ سینسس کے مطابق 2019 سے 2025 تک کے اعداد و شمار کا مفصل جائزہ اور تجزیہ وادی کے آبی ذخائر میں سردیوں کے پرندوں کی آبادی کے رجحانات کو نمایاں طور پر ظاہر کرتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد یوریشین ٹیئل کی رہی، جس کی تعداد 2022 میں2,92,039 ا ور 2025 میں3,36,053 ر ہی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ پرندے وادی کے کم گہرے اور نباتات سے بھرے آبی ذخائر کو مستحکم طور پر ترجیح دیتے ہیں۔اعداد و شمارکے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادرن شوولر کی آبادی 2019 میں 53,868 سے بڑھ کر 2025 میں 2,09,715 تک جا پہنچی ہے، جب کہ یوریشین ٹیئل کی تعداد 2022 میں 3,36,053 کے ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد مستحکم رہی۔ یہ مسلسل اضافہ آبی ذخائر میں بہتر پانی کی دستیابی، شور کی کمی اور انسانی مداخلت میں کمی سے جڑا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق امسال سردیوں میں ہوکرسر آبی پناہ گاہ میں سب سے زیادہ 29.97 فیصد پرندے موجود پائے گئے، اس کے بعد شالہ بْگ میں 29.44 فیصد، ہائیگام، ولر سمیت دیگر آبی ذخائر میں مجموعی طور پر 40.59 فیصد پرندے درج کئے گئے۔سب سے زیادہ تعداد یوریشین ٹیئل کی رہی جو 2 لاکھ 92 ہزار 39 پر مشتمل ہے، یعنی مجموعی تعداد کا 22.17 فیصد۔ اس کے بعد میلرڈکی 2 لاکھ 26ہزار 23اور نادرن شوولر کی 2 لاکھ 9 ہزار 715 تعداد رہی۔ مجموعی طور پر 7اقسام میلرڈ، یوریشین ٹیئل، نادرن پنٹیل، یوریشین کوٹ، شوولر، گیڈوال اور ویجن نے 91 فیصد سے زائد پرندوں کا حصہ تشکیل دیا۔محکمہ وائلڈ لائف پروٹیکشن جموں و کشمیر کے مطابق یہ اضافہ گزشتہ چند برسوں میں کیے گئے مؤثر انتظامی و ماحولیاتی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ آبی پناہ گاہوں میں پشتوں کی تعمیر، پانی کے بہاؤ کے نظام کی بہتری، دلدلی علاقوں کی صفائی، غیرملکی جڑی بوٹیوں کی تلفی، اور قدرتی آبی نباتات کی بحالی نے ان مقامات کو دوبارہ حیات بخشی ہے۔ ساتھ ہی کچرے کے نظام، پانی کے معیار کی مسلسل نگرانی اور اینٹی پوچنگ سکواڈ کی نگرانی نے پرندوں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر، جو سینٹرل ایشین فلائی وے کا اہم حصہ ہے، سائبیریا، وسطی ایشیا اور چین سے آنے والے لاکھوں پرندوں کے لیے قدرتی ٹھکانہ بن چکا ہے۔ماحولیاتی سائنس داں ڈاکٹر اعجاز مقبول کا کہنا ہے کہ یہ پرندے وادی کے صحت مند ماحولیاتی نظام کی علامت ہیں، کیونکہ پرندوں کی کثرت براہِ راست پانی کے معیار، نباتات کی صحت اور قدرتی توازن کو ظاہر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ صورتحال حوصلہ افزا ہے، تاہم ماہرین متنبہ کرتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ، زرعی آلودگی، ماحولیاتی تبدیلی اور شہری پھیلاؤ جیسے چیلنجز ابھی بھی موجود ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی، عوامی شمولیت اور پالیسی تسلسل ناگزیر ہے۔