یواین آئی
نئی دہلی// افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے نئی دہلی میں ایک فالو اَپ پریس کانفرنس منعقد کی، جس میں اس بار خواتین صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ ان کی یہ پریس بریفنگ اْس وقت موضوعِ بحث بن گئی جب پہلی پریس کانفرنس میں خواتین کی عدم شمولیت پر انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ متقی نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ محض ایک ‘تکنیکی مسئلہ’ تھا اور کسی کو بھی عمداً نظرانداز نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت ہندوستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے اور تجارتی و تعلیمی تعلقات کو وسعت دینے پر توجہ دے رہی ہے۔امیر خان متقی نے اعلان کیا کہ امرتسر اور افغانستان کے درمیان براہِ راست پروازیں شروع کی جائیں گی اور دارالعلوم دیوبند کے ساتھ تعلیمی تبادلے کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھانے اور واہگہ بارڈر کو کھولنے کی خواہاں ہے۔ خواتین کی تعلیم سے متعلق سوال پر متقی نے کہا کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور طالبان تعلیم کے مخالف نہیں۔انہوں نے پاکستان سے تعلقات کو پیچیدہ مگر غیر دشمنانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو بات چیت کے ذریعے اختلافات حل کرنے چاہئیں۔ اگرچہ ان کا یہ دورہ علاقائی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم خواتین صحافیوں کی عدم شمولیت پر تنازع نے ایک بار پھر افغانستان میں انسانی حقوق اور شمولیت کے مسائل کو نمایاں کر دیا ہے۔