سبدر شبیر
شہر کے پرانے محلے کے آخر میں ایک مکان تھا جس کی کھڑکیاں ہمیشہ بند رہتیں۔ دیواروں پر نمی کے دھبے، صحن میں اُگے کانٹے دار پودے اور زنگ آلود دروازہ۔ سب مل کر اسے ایک زندہ مزار سا بناتے۔ لوگ سمجھتے یہ مکان برسوں سے ویران ہے، مگر دراصل یہاں زاہد رہتا تھا، ایک ایسا شخص جس کی زندگی وقت اور تنہائی نے اندر سے کھلی کر دی تھی۔
کبھی یہی مکان زندگی کی خوشبو سے بھرا رہتا تھا۔ بیوی کی ہنسی، بچوں کی شرارتیں اور زاہد کا سکون۔
مگر بیوی بیماری کی نذر ہوئی اور بچے بڑے ہو کر اپنے اپنے جہاں میں گم ہو گئے۔ یوں مکان اور زاہد ایک دوسرے کے عکس بن گئے باہر سے زندہ، اندر سے اجڑا ہوا۔
راتیں زاہد کے لئے سب سے بھاری لمحے لاتی تھیں۔ جب محلہ سو جاتا، وہ جاگتی آنکھوں کے ساتھ یادوں میں ڈوب جاتا۔ کبھی لگتا بیوی کچن میں ہے، کبھی بچوں کی ہنسی سنائی دیتی، مگر حقیقت ہمیشہ خالی دیواریں ہی ہوتیں۔ وہ خود سے سوال کرتا:
“کیا میں زندہ ہوں یا صرف سانس لیتا جسم؟” مگر جواب کبھی نہ ملتا۔
ایک دن اس نے پرانی کاپی نکالی اور لکھا:
“میں ایک آواز ہوں جو دیواروں سے ٹکرا کر مر جاتی ہے۔میں ایک مکان ہوں جس کا دل قبر ہے۔”
کچھ لمحوں کے لیے دل ہلکا ہوا، پھر سوچا: “یہ کون پڑھے گا؟” اور کاپی بند کر دی۔
زندگی یوں ہی رینگتی رہی، یہاں تک کہ ایک دن ایک بچہ، علی، دروازے پر آیا۔ زاہد نے کھولا تو ننھی آنکھوں میں سادگی اور معصومیت جھلک رہی تھی۔ علی نے کہا:
“چچا، آپ ہمیشہ اکیلے کیوں رہتے ہیں؟ کبھی ہمارے ساتھ کھیلنے آ جائیں۔”
زاہد کے دل پر جیسے کوئی دستک ہوئی۔ وہ لمحہ بھر کو خاموش رہا، پھر مسکرا کر بولا:
“بیٹا، کھیلنے کے دن تو میرے گزر گئے…۔۔۔۔۔۔۔۔”
اس نے آہستہ سے دروازہ بند کیا، مگر اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔
اس دن کے بعد علی اکثر دروازے پر آ کر “السلام علیکم” کہتا اور بھاگ جاتا۔ زاہد کبھی جواب دیتا، کبھی صرف سنتا۔ یہ مختصر سلام گویا زاہد کے لیے زندگی کی آخری کرن بن گیا۔ وہ سوچنے لگا: “کیا یہ وقت ہے کہ میں پھر سے دروازہ کھولوں؟ کیا شاید کوئی میرا انتظار کر رہا ہے؟”
پھر ایک رات اس نے خواب دیکھا۔ مکان کی دیواریں سرگوشی کر رہی تھیں:
“زاہد، دیر نہ کر۔ دروازہ کھول، ورنہ ہم تجھے بھی نگل لیں گے۔”
اگلی صبح وہ لرزتے ہاتھوں سے دروازے کی کنڈی تک گیا۔ دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے ہمت کر کے دروازہ کھولا۔ روشنی اندر پھیلی مگر باہر کوئی نہ تھا۔ گلی سنسان تھی۔ علی بھی کہیں دکھائی نہ دیا۔ زاہد نے آہستہ سے سر جھکا لیا۔ “میں پھر دیر کر گیا…”
کچھ دن بعد محلے والوں نے دیکھا کہ زاہد نظر نہیں آ رہا۔ جب دروازہ توڑ کر اندر گئے تو وہ کرسی پر خاموش بیٹھا تھا، ہاتھ میں وہی پرانی کاپی۔ کاپی کے آخری صفحے پر تحریر تھا:
“میں نے دروازہ کھولا، مگر وقت جا چکا تھا۔ تنہائی سب سے بڑی موت ہے، اور میں برسوں سے مر رہا تھا۔”
مکان کچھ عرصہ ویران رہا۔ پھر نئے لوگ آ گئے۔ بچوں کی ہنسی صحن میں گونجنے لگی، کھڑکیاں کھلیں، دیواروں پر نیا رنگ چڑھ گیا۔ مگر رات کے سکوت میں وہ دیواریں اب بھی سرگوشی کرتی ہیں:
“یہاں ایک شخص رہتا تھا… جس نے دروازہ دیر سے کھولا۔”
���
موبائل نمبر؛9797008660
[email protected]