ڈپریشن کی بلند شرح تقریبا ً41فیصد، اضطراب26فیصداور نفسیاتی تنائو19فیصد درج
پرویز احمد
سرینگر // 10اکتوبر کوپوری دنیا کیساتھ ساتھ عالمی نفسیاتی صحت کا دن منایا گیا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق گذشتہ 10سال کے دوران 35فیصد افراد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اورہر سال لاکھوں لوگ روزگار اور دیگر چیزیں کھونے کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔جموں اور کشمیر میں ذہنی صحت ایک بڑی تشویش ہے، جس میں پریشانی، ڈپریشن، اضطراب اور نفسیاتی تنا ئوکی بلند شرحیں برسوں کے معاملات سے منسلک ہیں۔ یہ مسائل ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی شدید کمی کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ حکومت کے ٹیلی-مانس پروگرام جیسی کوششیں رسائی کو بڑھانے میں مدد کر رہی ہیں۔جموں و کشمیرمیں دماغی صحت کے چیلنجزکی سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بالغ آبادی کا 45 فیصدنمایاں ذہنی پریشانی کی علامات ظاہر کرتا ہے۔مخصوص عوارض کی بڑھتی ہوئی شرح میں ڈپریشن کی بلند شرح (تقریبا ً41 فیصد)، اضطراب (26فیصد)اور نفسیاتی تنائو19 فیصد ظاہر کرتا ہے۔صدمے کا اثر بالغوں کی ایک بڑی تعداد میں تجربہ کیا گیاہے۔ مطالعہ میں پتہ چلا ہے کہ جوانوں اور 40سال سے اوپر کی عمر کے 47 فیصدنے کسی نہ کسی قسم کے صدمے کا سامنا کیاہے۔بچوں اور نوعمروں میں اثرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ این آئی ایچ کا کہنا ہے کہ بچے مدافعتی نہیں ہیں اور گذشتہ 15برسوں میں خودکشی کے رجحانات بڑھ گئے ہیں۔دماغی عارضے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور یہ دنیا کے تمام خطوں میں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔2024میں کی گئی ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں ذہنی خرابیوں کی حد کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ یہاں کی دیہی آبادی میں ذہنی امراض کے پھیلائو کا اندازہ لگانے کی اشد ضرورت تھی اور یہ مطالعہ دماغی امراض میں مبتلا افراد کا اندازہ لگانے کے لیے کیا گیا تھا۔مجموعی طور پر، وادی میں بالغ آبادی کا 11.3فیصدذہنی امراض کا شکار ہے۔ مردوں 8.4)فیصد) کے مقابلے میں، خواتین میں زیادہ (12.9) فیصد پھیلائو دیکھا گیا ہے۔ ڈپریشن کے عوارض (8.4%) سب سے زیادہ عام نفسیاتی عوارض تھے، اس کے بعد اضطراب کی خرابی (5.1%) اور دماغی عارضے میں مبتلا 12.6فیصدمریضوں نے اپنی بیماریوں کے علاج کی کوشش کی ہے۔نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ 13فیصد ہلکی اور 9فیصد شدید نفسیاتی پریشانی میں مبتلا ہورہے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز اور مینٹل ہیلتھ میں تعینات ڈاکٹر ارشد حسین کا کہنا ہے ’’ نفسیاتی بیماری کے اثرات آجکل قریب 30فیصد لوگوں میں دیکھے گئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ روزگار میں کمی، قرض کی عدم ادائیگی، رشتوں میں سرد مہری، سماجی نا برابری اور بری صحبت کی وجہ سیلوگ نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں جس کے دوران وہ منشیات کی لت میں مبتلا بھی ہوتے ہیں اور کبھی خود کشی کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ ٹیلی مانس سے ان ذہنی مریضوں تک علاج پہنچا ،جو سماج کے ڈر سے ماہر نفسیات سے ملنے سے کتراتے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ ٹیلی مانس کی فری ہیلتھ لائن پر لوگ بات کرکے نفسیاتی بیماریوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلی مانس پر ابتک 70ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا جو بیشتر دور درازعلاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کال کرنے والے لوگوں میں 75فیصد خواتین اور25فیصد مرد ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا ’’ چند دن قبل رات کو قریب 1بجے خود کشی کرنے پر آمدہ ایک شخص کا فون آیا لیکن بروقت کونسلنگ سے وہ ایک قیمتی جان بچانے میں کامیاب رہے‘‘۔