حافظ نوید الاسلام
زندگی کی کتاب میں جوانی ایک ایسا باب ہے جو حرارت و روشنی، جذبہ و جنون اور خوابوں اور ارمانوں سے لبریز ہوتا ہے۔یہ عمر انسان کی قوتِ ارادی، فکر و عمل اور شخصیت کی تعمیر کا زمانہ ہوتا ہے۔زندگی کے دوسرے تمام مرحلے اپنی معنویت رکھتے ہیں، مگر جوانی وہ موسم ہے جہاں سے تقدیر کی راہیں بہاروں یا خزانوں کی جانب رخ کر لیتی ہیں۔
یہی عمر ہے جو انسان کو یا تو عروج و عظمت بخشتی ہے یا زوال وادبار کے دہانے تک پہنچا دیتی ہے۔علامہ اقبال ؒ نے اسی عمر کی حقیقت کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا۔؎
وہی جواں ہے قبیلے کو آنکھ کا تارا
شباب جس کا بے داغ، ضرب ہے کاری
اقبال ؒ کے نزدیک جوانی زندگی کا وہ پڑاؤ ہے جب انسان میں’’خودی‘‘ جاگتی ہے،اور وہ اپنے رب، اپنی حقیقت اور اپنے مقصد کو پہچاننے کی صلاحیت پاتا ہے۔یہی وہ وقت ہے جب دل میں ولولۂ ایمان بیدار ہوتا ہے اور نگاہوں میں انقلاب کی چمک کو ندتی ہے۔قرآنِ کریم نے نوجوانوں کی قوتِ ایمانی اور استقامت کو خاصی اہمیت دی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’یہ چند جوان تھے جنہوں نے اپنے ربّ پر ایمان لایا اور ہم نے ان کو ہدایت میں مزید ترقی دی۔‘‘(الکہف: 13)۔یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ایمان کی پختگی اور قربِ الٰہی کا سفر عموماً جوانی کے عزم اور صداقت سے شروع ہوتا ہے۔اسی لیے نبی اکرم ؐ نے فرمایا:’’قیامت کے دن نوجوان سے اس کی جوانی کے بارے میں الگ سے سوال کیا جائے گا،جوانی کہاں گزاری اور کس راہ میں صرف کی؟‘‘(ترمذی)یہ سوال دراصل یاد دہانی ہے کہ جوانی محض لطف اندوزی کا دور نہیں بلکہ کڑے امتحان کا وقت ہے۔
جوانی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب جذبات اپنی انتہا پر ہوتے ہیں۔دل میں خواب ہوتے ہیں، ذہن میں تمنائیں اور وجود میں آگ لگی رہتی ہے۔اسی دوران انسان کے اندر روشنی اور اندھیرے، خیر و شر، شعور و غفلت کی کشمکش برپا رہتی ہے۔مولانا الطاف حسین حالیؔ نے خوب کہا ؎
شباب آ کر جوانی کی خبر دیتا ہے لوگوں کو
مگر جاتا ہے جب تو زندگی کا راز کھلتا ہے
یہ شعر بتاتا ہے کہ جوانی کی اصل قدر اُس وقت سمجھ آتی ہے جب وہ گزر جاتی ہے۔ اقبال ؒ کے نزدیک نوجوان صرف عمر کا نام نہیں بلکہ یہ فکر، ایمان اور خودی کا استعارہ ہے۔انہوں نے فرمایا ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
یہ شعراس بات کی دعوت دیتاہے کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ایمان اور عمل کی بنیاد پر پروان چڑھایں۔وہ زمانے کے دھارے میں بہنے والا نہیں بلکہ راہ بنانے والا ہو۔
جوانی کی چمک کے ساتھ اس کے خطرات بھی گہرے ہیں۔یہی وہ حساس وقت ہوتا ہے جب انسان خواہشات، جذبات اور معاشرتی اثرات کے زیرِ اثر آتا ہے۔شیطان اسی عمر کو اپنی گمراہیوں کا ہدف بناتا ہے، کیونکہ یہی عمر فیصلہ کن ہوتی ہے۔اگر نوجوان نے ضبطِ نفس، حیا، اور صبر کو اپنا ساتھی نہ بنایا تو یہ خدای نعمتوں کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔فیض احمد فیضؔ کا شعر گویا اس کیفیت کی آئینہ داری کرتا ہے۔
نگاہِ شوق میں جلوے بدل بدل کے چلے
شباب آتا رہا اور ہم سنبھل کے چلے
نبی کریمؐ نے فرمایا:’’وہ نوجوان جو اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزارتا ہے،قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ عبادت، علم اور خدمت کے ذریعے جوانی کو سنوارنا سجانا انسان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں عزت کا موجب ہے۔احمد ندیم قاسمیؔ کے الفاظ میں؎
جوانی نام ہے قربانیوں کا
جہاں میں روشنی ایمان سے ہے
جوانی کا حسن صرف خوبصورتی میں نہیں بلکہ کردار، عمل، عزم اور احساسِ اور جذبہ خدمت میں پنہاں ہے۔جو نوجوان اپنی قوت کو انسانیت ،امت، علم اور اخلاق کی بھلائی میں لگاتا ہے،وہی اصل میں ’’اقبال کا شاہین‘‘ اور’’اسلام کا خادم‘‘ کہلاسکتا ہے۔جوانی امید، جذبے اور امتحان کا حسین امتزاج ہے۔یہ عمر فیصلہ کرتی ہے کہ انسان آگے روشنی کی طرف بڑھے گا یا تاریکی میں کھو جائے گا۔اگر اس وقت کو ایمان، علم، تعمیر سیرت اور خدمت میں صرف کیا جائے تویہی عمر اخلاقی بلندی، روحانی سکون اور دائمی کامیابی کا زینہ بن جاتی ہے۔پس، اے نوجوان!اپنی جوانی کو اللہ کی اطاعت، علم کی روشنی اور خدمتِ خلق میں گزار کیونکہ یہی وقت ہے جو اگر سنور جائے،تو پوری زندگی سنور جاتی ہے۔جوانی زندگی کا سب سے حسین، طاقتور اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔یہ وہ دور ہے جب انسان میں طاقت، توانائی، جوش و جذبہ اور ذہنی صلاحیت اپنی انتہا پر ہوتے ہیں۔جوانی امید، جذبہ اور امتحان کا حسین امتزاج ہے۔امیدوں اور یقینوں کی آماج گاہ کیونکہ اسی دور کے اندر دل میں خواب اور جگر میں امنگیں جنم بھی لیتی ہیں اور انگڑائیاں بھی۔ ایک انسان میں عہد شباب میں ہی عمل کرنے اور دنیا بدلنے کی توانائی ہوتی ہے۔ یہ امتحان کا زمانہ ہے کیونکہ نوجوان کو اپنی خواہشات، جذبات اور ماحول کے اثرات سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔اسلام میں نوجوانوں کی خاص اہمیت بیان ہوئی ہے۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جوانی کے استعمال کے بارے میں الگ سوال کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانی اللہ کی ایک قیمتی نعمت اور امانت ہے، جسے ضائع نہیں کیا جا سکتا۔
اقبال ؒ اور دیگر شعراء نے نوجوانی کو خودی، علم، عزم اور خدمت کے تناظر میں بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جس نوجوان نے اپنی جوانی کو ایمان، عمل اور خدمت کے لیے استعمال کیا، وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ قوم و امت کے لیے بھی روشنی بن جاتا ہے۔خطرات اور آزمائشیں بھی جوانی کے ساتھ ہی جڑی ہوی ہیں، جیسے خواہشات، غلط صحبت اور وقت کا زیاں۔نوجوان کا کام ہے کہ خود پر قابو پائے، صبر و حیا اختیار کرےاور علم و عبادت میں وقت صرف کرے۔جوانی زندگی کی بنیاد ہے،اگر یہ وقت دانائی، نیکی اور مقصدیت کے ساتھ گزارا جائے تو یہ انسان کی زندگی سنوار دیتی ہے، اس کی شخصیت مضبوط کرتی ہے اور آخرت میں کامیابی کا سبب بنتی ہے۔نوجوان کے لیے پیغام یہی ہے کہ اپنی جوانی کو ضائع نہ کرو بلکہ اسے ایمان، عمل، علم اور خدمت میں لگاؤ ۔ یہی وقت ہے جس سے زندگی، قوم اور تقدیر بنتی اور بگڑتی ہے۔