اعجاز میر
سرینگر//اچھن سعد پورہ میں روزانہ کی بنیاد پر شہر سرینگر سے نکلنے والا کچرا، جس نے اب پہاڑوں کی شکل اختیار کی ہے، نہ صرف مقامی بستیوں کے لئے وبائی خطرے کی علامت بن گئے ہیں بلکہ یہاں ہزاروں ٹن کچرے کی موجودگی سے سنگم اور اچھن میں قریب 600کنال زرعی اراضی بنجر بن گئی ہے، جسے مالکان نے آباد کرنا چھوڑ دیا ہے۔شہر سرینگر سے ہر روز 550ٹن کچرا نکلتا ہے جسے میونسپل کارپوریشن کی کم سے کم 80گاڑیاں اچھن کے کوڑے دان کی ڈمپنگ سائٹ پر جمع کرتی ہیں۔2021سے قبل یہاں میکنیکل سیگریگیٹر یونٹ کام کررہا تھا جو پچھلے 4سال سے بیکار پڑا ہے اور یوں روزانہ کی بنیاد پر جو 150ٹن کچرا الگ الگ کیا جاتا تھا، وہ عمل بھی بند ہوگیا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں کچرے کے ڈھیروں سے اٹھنے والی بد بو اور میتھین گیس کے اخراج سے علاقے کی 56فیصد آبادی چھاتی، معدے اور جلد کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر شرح بچوں اور معمر اشخاص کی ہے۔
علاقے کی 12بستیاں بری طرح متاثر ہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر 5رہاشی بستیاں ہیں۔محکمہ ریونیو کے ریکارڈ کے مطابق اچھن کچرے کے ڈھیروں کے نزدیک سنگم،شنگلی پورہ،وانگن پورہ، گرڈ کالونی وانگن پورہ اور کھار محلہ کی ملکیتی زرعی اراضی تھی۔ اسکے علاوہڈیگدڑیار، زونی مر اور ٹنگہ پورہ کی اراضی بھی آتی تھی لیکن ان بستیوں کی بہت کم اراضی متاثر ہوئی۔ رینیو ریکارڈ کے مطابق سعد پورہ اے اینڈ بی، دانہ مر،ابو بکر کالونی، علمدار کالونی،رحمت کالونی،کھانڈے محلہ،مین دانہ مر، بریوار، اور نور شاہ کالونی کی زرعی اراضی کے نزدیک کچرا ڈالنے کی شروعات کی گئی جس نے علاقے میں ملکیتی زرعی اراضی کی قیمتیں بھی نیچے گرادیں اور یہاں پیدا ہونے والی فصل کے امکانات کو بھی آئندہ کیلئے ختم کردیا۔ریونیو ریکارڈ میں علاقے کی قریب 600کنال اراضی کچرے کے ڈھیروں کے آس پاس پہلے زیر کاشت تھی اور یہاں برے پیمانے پر دھان کے کھیت موجود تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہاں 2010تک دھان کی پنیری لگائی جاتی تھی اور مقامی لوگ سبزیاں وغیرہ بھی اگاتے تھے لیکن اسکے بعد یہاں سلسلہ رفتہ رفتہ ختم ہوگیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی ہزاروں کنال اراضی متاثر ہوچکی ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر قریب 600کنال زرعی اراضی ہے جس پر دھان کی فصل اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں۔لوگوں نے کہا کہ2010کے آس پاس جونہی وہ اپنے کھیتوں میں جا نے لگے اور پانی سے ٹانگوں اور پیروں میں الرجی ہونے لگی اور خارش کی وجہ سے لوگوں کا برا حال ہوا۔مقامی سماجی کارکن منظور احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ خود اپنے گھر کیلئے دھان کی پنیری لگاتے تھے لیکن 2010کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ قریب 600کنال سے زیادہ کی اراضی لوگوں نے کسی بھی طرح کے استعمال سے چھوڑ دی ہے۔ یہ سینکڑوں کنال اراضی اب بنجر بن گئی ہے اور لاوارث پڑی ہے۔منظور احمد کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے اٹھنے والی بد بو اور میتھین گیس کے اخراج کے علاوہleachateسے یہ زرعی اراضی نا قابل استعمال بن گئی ہے۔علاقے میں موجود محکمہ مال کے افسران نے کشمیر عظمیی کو بتایا کہ اچھن کے قریب سبھی زرعی اراضی ملکیتی تھی لیکن اب سینکڑوں کنال خالی پڑے پڑے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اب اس اراضی کا نہ کوئی خریدار ہے اور نہ یہاں کوئی فصل اگائی جاسکتی ہے۔