حسب ِ حال
وسیم فاروق وانی
ہمارے خطہ ارضی میں جہاں کچھ وقت قبل تک شادی بیاہ کا مطلب محبت، رشتہ داری اورفرحت و انبساط کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، وہاں اب ایک نئی وبا جنم لے چکی ہے۔ یہ نہ چیچک ہے، نہ ہی فلو اور نہ ہی ہمارا لاڈلہ کووڈ، بلکہ یہ’ ڈیجیٹل بخار‘ ہے۔ وازوان لذیذ تھا کہ نہیں، براتیوں کی تواضع اچھی طرح سے ہوئی یا نہیں ، GEN Zکو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کیلئے شادی کی کامیابی کا ایک ہی معیار ہے : انسٹا گرام پر کتنی ریلز بنیں؟ اور snapchat پر کتنی اسٹرِیکس مکمل ہوئیں۔
کبھی شادی کی محفلوں میں محلے کی خالائیں، دادیاں اور نانیاں بیٹھ کرروف گاتیں۔ مہندی کے ڈیزائن دلہن اور قریبی سہیلیوں کے درمیان ایک راز ہوتے۔ آج کل وہی ڈیزائن انسٹا پر اپ لوڈ ہوتے ہیں، ساتھ ہیش ٹیگ: #MehndiVibes #ShaadiSeason
اب مرکزی سوال یہ نہیں رہ گیا کہ وَازوان مکمل تھا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ دلہن کی مہندی پر #HennaGoals ٹرینڈ کیا یا نہیں، اور دلہے کی باراتی انٹری پر کمنٹس میں زیادہ ’’ماشاء اللہ‘‘ آئے یا LOL۔
آج کل ووستہ وازہ سے زیادہ کیمرہ مین کی اہمیت ہے۔ ضیافت میں نمک کم ہو تو کوئی اعتراض نہیں، لیکن اگر کیمرہ ایچ ڈی نہ ہو تو شادی کی تقریب ناکام ٹھہری!!
کچھ دن پہلے ایک شادی میں دولہا صاحب بارات کے ساتھ داخل ہوتے ہی انسٹاگرام پر Live ہو گئے۔ مائیک پر قاضی صاحب نے خطبہ شروع کیا اور ادھر دلہا صاحب کا کیپشن آیا:
#takenforever #Partnership
#Lifechanginginnings
! #ShaadiVibes #QuboolHai
پہلے شادی کے مرکزی کردار دولہا اور دلہن ہوتے تھے۔ اب شادی کے اصل ہیرو وہ کیمرہ مین اور سوشل میڈیا ہینڈلر ہیں جو بیرون جموں وکشمیر تک سے سے بلائے جاتے ہیں۔ دولہا زندگی کی نئی اننگزشروع کرنے جارہا ہوتا ہے ، لیکن ریلز میں اسے ’’ہیرو انٹری‘‘ دینی پڑتی ہے۔ کبھی بائیک پر، کبھی کرکٹ بیٹ تھامے، اور کبھی ڈرون کیمرے کے نیچے سے گزرتے ہوئے۔
کہہ لیجئے کہ پہلے شادی میں ہر طرف بہو بیٹیوں کے قہقہے اور بچوں کے ٹھہاکے سنائی دیتے تھے ، لیکن اب چاروں طرف ڈرونز کی بِھنکار ہی گونجتی ہے !
شادی کے دوران اب مسئلہ مہمانوں کی دلجوئی نہیں، بلکہ اسنیپ چیٹ اسٹرِیکس ہوتے ہیں۔ ایک دولہا صاحب تو شادی کے اگلے روز یہ تک کہتے سُنے گئے کہ ’’محترمہ کو برآت کے دیر سے آنے کا غصہ نہیں تھا، اس نے تو گھر آتے ہیں اسٹرِیک ( streak)توڑنے پر میری خبر لی!‘‘
پہلے شادی کے دن ایک مقامی فوٹوگرافر آتا، درجن دو درجن فوٹو لیتا اور ایک البم بناتا۔ آج پانچ فوٹوگرافر، دو ڈرون، اور ایک cinematic reel director لازم ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہالی وُڈ فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ دلہن کی انٹری پر slow motion، دلہے کے قہقہے پر drone shot، اور وَازوان کھاتے ہوئے باراتیوں پر candid reels۔
وازوان کو اب بھی دنیا بھر میں کشمیری شادی کا جزو لاینفک شمار کیا جاتا ہے، لیکن سوشل میڈیا نے یہاں بھی مداخلت شروع کر دی ہے۔ترامی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہی آواز آتی ہے:’’او بھائی، پہلے ریل تو بنا لینے دے!‘‘
فوٹو گرافرز اور سوشل میڈیا ایڈیٹرز کی ہدایت پر اب نت نئے رواج شروع کئے جارہے ہیں، کیمرہ مین کی فرمائش پر دولہے نے اپنی بیوی کو پہلا لقمہ کھلایا تو کیمرہ مین چیخ اٹھا :’’جی پلیز دوبارہ کھلائیے، پہلی فوٹیج میں روشنی کم تھی!‘‘
ساتھ ہی کھڑے براتی نے گہری آہ بھرتے ہوئے کہا retakesکی نوبت تک آگئی ہے گویا شادی نہ ہوئی فلم شوٹنگ ہوگئی !!!
جب بڑے بزرگ یہ دیکھتے ہے کہ شادی عبادت کے بجائے ایک تماشہ بن چکی ہے، تو پیار سے سمجھاتے ہیں:
’’بیٹا، شادی اللہ کی رحمت ہے، یہ دکھاواہر گز روا نہیں۔‘‘
تو جواب آتا ہے:
”اوہ ہو uncle… آپ تو toxic ہیں۔
اور
Control freak vibes detected سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا جاتا ہے۔
صاحبان !گزشتہ دنوں وادی کے ایک سرکردہ مولوی صاحب کی تقریر وائرل ہوئی، جس میں وہ فرما رہے تھے’’ نکاح اور شادی کی ویڈیوز اور ریلز کو سوشل میڈیا پر ڈالنا تباہی ہے! شادی کو دین اور عبادت سمجھو!‘‘سناتودل کو بڑا سکون ہوا کہ کوئی تو اس نقار خانے میں آواز اٹھا رہا ہے ۔مگر برا ہو ان social media algorithms کا !! دو منٹ ان کی ویڈیو کیا دیکھی !! اگلی ویڈیو بھی ان کی ہی تھی: سفید پوشاک زیب تن پورے بالی ووڈ سٹائل میں نکاح پڑھا رہے تھے، اور دھڑا دھر ریلز بن رہی تھیں!!
اب شادی کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ دلہن کے ہاتھ پر لگی مہندی کتنے لائکس لاتی ہے، دولہے کا’’کرکٹ انٹری شاٹ‘‘ کتنے ویوز لیتا ہے، اور وازوان کی ترامی کتنے کمنٹس جمع کرتی ہے۔ کچھ سیانے تو شادی کے فوراً بعد پوسٹ کی ریچ دیکھ کر حساب لگاتے ہیں؛’’ شادی کامیاب رہی، پوسٹس پر 10ہزار لائکس آئے!‘‘
ہنسی اور طنز اپنی جگہ !اس وبا کے نقصانات محدود نہیں:
۱) پرائیویسی کا خاتمہ، نکاح جیسے مقدس کلمات بھی اب ریلس کی کانٹینٹ بن چکے ہیں۔
۲) احساسِ کمتری: جو نوجوان اپنی شادی میں اتناشو شا نہیں کر سکتا، وہ خود کو کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
۳) روایات کی بربادی: وازوان کی خوشبو،نجی محفلیں، شرم و حیا ، سب انسٹا گرام کے فلٹرز میں کھو جاتے ہیں۔
۴)نمود و نمائش کا سفلی پن: شادی عبادت سے زیادہ مارکیٹنگ شو لگنے لگی ہے۔
شادیاں ہمیشہ محبت، ایمان اور خاندانی جڑت کی علامت رہی ہیں۔ لیکن آج ہم نے انہیں لائکس اور کمنٹس کے کارخانے میں بدل دیا ہے۔ اگر یہ رجحان اسی طرح بڑھتا رہا تو آنے والی نسلوں کے لیے شادی کا مطلب صرف ایک ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ رہ جائے گا۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا:
کیا ہم اپنی مقدس روایات کو سوشل میڈیا کے الگورتھمز کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں؟
یا پھر ہم انہیں دوبارہ زندہ کر کے نسلوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شادی ایک مقدس وعدہ ہے، نہ کہ ریلز بنانے کا بہانہ۔
ورنہ شاید وقت دور نہیں جب نکا ح کے کلمات بھی اسی طرح سنائے جائیں گے:
’’قبول ہے… اگر یہ ریل وائرل ہو جائے تو!‘‘
[email protected]