بالآخردو ماہ کا عرصہ گذرجانے بعد جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے یہاں فروخت ہونے والےمنجمند گوشت ،چکن اور مچھلیوں کی مصنوعات کی خریدو فروخت،ذخیرہ اور ترسیل پر ایک سال کے لئے پابندی عائد کردی ہے جبکہ فوڈ ایڈ سیفٹی محکمہ نےیہ دعویٰ بھی کر ڈالا ہے کہ وادیٔ کشمیرمیں جو گلےسڑے ،بوسیدہ،مضرِ صحت اور مہلک بیماریوں کو جنم دینےوالی کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً بیرون ریاستوں سے آنے والا جو پروسسڈ گوشت عرصۂ دراز سےاستعمال ہوتا آرہا ہے،وہ کتّوں،گھوڑوں یا دیگر حرام جانوروں کا گوشت نہیں تھا،بقول اُن کے کافی تحقیق اورجانچ پڑتال کے بعد اس بات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہےکہ یہ حرام جانوروں کا گوشت ہے۔البتہ اس گوشت کے ساتھ ساتھ چکن اور مچھلیوںکو برآمد کرنے پر اس لئے روک لگادی گئی ہے کہ یہ اشیاء فوڈسیفٹی کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے لائے جارہے ہیں۔محکمہ سیفٹی فوڈ کے اس دعوے کے ساتھ کشمیری عوام کس حد تک مکتفی ہوں گےاور اُس کی باتوں پر کہاں تک بھروسہ کریں گے، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
کیونکہ سبھی جانتے ہیںکہ رواں سال کے ماہِ اگست کے دوران اپنی اِس وادیٔ کشمیر میں فوڈ ایند سیفٹی محکمہ نے ہی تمام اضلاع میں اپنی چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران جس بڑے پیمانے پر بوسیدہ گوشت ،چکن و مچھلیاں اور ان سے بنے کھانے برآمد کرکے ضائع کردیں ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہیں۔ساتھ ہی فوڈسیفٹی نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہےکہ یہاں کے چھاپڑی فروشوں، ریستوران اور ہوٹلوں کے پکوانوں میںمصنوعی رنگوںکا استعمال ہورہا ہےبلکہ ان پکوانوں میں ایسے ادویات بھی استعمال ہورہے ہیں جو ان کی لذّت بڑھاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہمارے کشمیری معاشرے میں منافع کی ہوس میں کچھ خود غرض و بے ضمیرلوگ ایسی غیر معیاری اور مضرِ صحت اشیاء بازار میں بیچ رہے ہیں، جو کھانے کے نام پر زہر کے مترادف ہوتےہیں۔ملاوٹ کایہ فتنہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب خالص اور غیر خالص میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔جہاںپھلوں کو مصنوعی طریقوں سے پکایا جا رہا ہے، وہیں سبزیوں پر ایسے کیمیکل اسپرے کئے جا رہے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ دودھ میں پانی، یوریا اور دوسرے خطرناک کیمیکلز ملائے جاتے ہیں،اسی طرح کھانے پکانے کے تیل میں ملاوٹ، مصالحوں میں ریت یا لکڑی کا برادہ اور مٹھائیوں میں غیر معیاری رنگوں کا استعمال بھی عام بات ہے۔اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ متعلقہ اداروں کا تغافل قرار دیا جارہا ہے۔ قوانین تو موجود ہیں لیکن اُن پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی اُن کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عام لوگوں میں بھی آگاہی کی کمی ہے، وہ صرف قیمت دیکھ کر چیز خرید لیتے ہیں، اس کے معیار پر توجہ نہیں دیتے۔لہٰذااس سنگین مسئلے کاذمہ دار محض متعلقہ محکمہ ہی نہیں بلکہ ہماراپورا معاشرہ ہے۔
عوام کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ وہ کھا رہے ہیں ،اُس کا اثر اُن کی صحت پر پڑنا لازمی ہے،کیونکہ صحت دولت سے زیادہ قیمتی ہے ،جس کی حفاظت کرنا انسان کا فریضہ ہے کیونکہ انسان کی بقا اور صحت کا انحصار اُس کی غذاپر ہوتا ہے۔بے شک انسان کی زندگی میں سب سے بڑی کشمکش اس کے اپنے نفس کے ساتھ ہوتی ہے۔ نفس ایک ایسی قوت ہے جوانسان کومسلسل اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے پر اُکساتی ہے، یہ خواہشات کھانے، پینے اور دیگر جسمانی لذتوں سے متعلق بھی ہوتی ہیں۔ جو کوئی اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیں تو یہ اُسے ایسی راہوں پر لے جاتا ہے جو اُس کی صحت اور خوشی دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا اپنے نفس کو قابو میں رکھنا نہ صرف ایک اخلاقی ضرورت ہے بلکہ یہ صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ضرورت اس بات کی ملاوٹ کے اس فتنہ کو مٹانے کے لئے حکومت، متعلقہ ادارے اور عوام سب کو مل کر کام کریں۔ جہاںحکومت کو چاہیے کہ فوڈ سیفٹی کے قوانین کو مزید سخت بنائیں، اُن پر عملدرآمد کو ہر ممکن طریقے پریقینی بنا کر ملاوٹ کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دیں تاکہ یہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائیں،وہیںعوام کو بھی چاہئیں کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کی معیار کے تئیں چوکس رہیںاور جہاں کہیں بھی ملاوٹ کا فتنہ پائیں فوراً متعلقہ محکمہ کی نوٹس میں لائیںتاکہ انسانی جانیں خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں۔