باہر کی منڈیوں کا میوہ لینے سے انکار، مقامی سٹوروں پر دلالوں کا قبضہ
بلال فرقانی
سرینگر//وادی کے فروٹ گروورس کوسخت مالی اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ امسال میوہ کی ریکارڈ توڑ پیداوار ہوئی ہے جس کی قیمتیںقومی شاہراہ کی بندش کے بعد یک دم سے نیچے آگئیں اور اب باہر کی منڈیوں نے میوہ بیجنے اور ذخیرہ کرنے سے انکار کیا جس کے بعد وادی کے باغ مالکان نے مقامی کولڈ سٹوروں میں میوہ ذخیرہ کرنے کی شروعات کی ہے۔ اچانک پیداوار کی بھرمار، کولڈ سٹوریج کی کمی، اور منڈیوں میں قیمتوں کی گراوٹ نے کسانوں کو بے حال کر دیا ہے۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کولڈ سٹوریج میں پھل ذخیرہ کرنے کی تجویز تو دی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر ان سہولیات پر پہلے ہی بڑے تاجروں اور دلالوں کا قبضہ ہوتا ہے۔جنوبی کشمیر کے لاسی پورہ علاقے میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ٹاٹا موبائل گاڑیوں کی لمبی قطاریں سیب سے بھری کھڑی ہیں، جبکہ کولڈ سٹور بعض
اوقات تین تین دن بند رہتے ہیں، جس سے فصل خراب ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔باغ مالکان کا کہنا ہے کہ اس سال ذخیرہ خانے عموماً سیزن کی روانی سے پہلے ہی 50 فیصد سے زائد بھر گئے تھے، اور کئی مقامات پر گاڑیاں خالی کرنے یا سٹوریج یونٹ تک رسائی کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑرہا ہے۔سٹوریج یونٹس میں مزدور اور عملہ کافی نہیں ہے، جس کی وجہ سے میوہ ان لوڈ کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ پلوامہ کے باغ مالک عبدالرشید نے بتایا’’جب کولڈ سٹوریج میں جگہ ہی نہیں ہے تو ہم کہاں جائیں؟ ہم قیمتوں کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن سب الٹ پلٹ ہوگیا۔‘‘شوپیان منڈی کے صدر محمد امین نے الزام لگایا کہ کولڈ سٹوروں کی زیادہ تر جگہیں پہلے ہی دلالوں نے مہنگے داموں کے لیے بْک کر رکھی ہیں اور اب وہ چھوٹے کاشتکاروں سے بھاری رقوم طلب کر رہے ہیں۔کولڈ سٹوریج مالکان کا کہنا ہے کہ وادی کی سالانہ پیداوار تقریباً 22 سے 25 لاکھ میٹرک ٹن ہے، جبکہ شوپیان اور پلوامہ کے 70 کولڈ سٹوریج یونٹس صرف 3.4لاکھ میٹرک ٹن سیب ہی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وادی میں اس وقت 89 کولڈ سٹوریج یونٹس موجود ہیں، جن کی مجموعی صلاحیت 3.41 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔حال ہی میں لوک سبھا میں پیش کی گئے ایک تحریری رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں موجود کولڈ سٹوریج کی مجموعی گنجائش 3.41 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حکومت ہند نے جموں و کشمیر میں 28 کولڈ سٹوریج یونٹس کے لیے 1463 کروڑ روپے کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی سوپور کے صدر فیاض احمد کاکا جی کا کہنا ہے کہ کولڈ سٹور مالکان نے بھی من مانہ رویہ اختیار کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ از خود قیمت مقرر کرتے ہیں اور ان پر کوئی بھی سرکاری کنٹرول نہیں ہے۔کاکا جی نے کہا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی، تو نہ صرف مالی نقصانات ہوں گے، بلکہ وادی کی معیشت، جو بڑی حد تک میوہ صنعت پر منحصر ہے، شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ میوہ تاجروں اور کولڈ چین سٹوروں کے مالکان کے درمیان گزشتہ برس بھی از خود قیمتیں مقرر کرنے اور پیکنگ میٹرل کے معاملے پر تنازعہ کھڑا ہوا تھا،جو اگر چہ وقتی طور پر کچھ سرد ہوا تاہم ابھی بھی سلگ رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں سالانہ 20 لاکھ میٹرک ٹن سیب پیدا ہوتا ہے، جس میں سے 8 لاکھ میٹرک ٹن A-گریڈ سیب ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 4 لاکھ میٹرک ٹن اعلیٰ معیار کا سیب فصل کے فوراً بعد منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے، جبکہ باقی ماندہ سیب کو نقصان سے بچانے کیلئے ’کنٹرولڈ اٹماسفیر سٹوریج ‘میں محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج کے تحت جموں و کشمیر انتظامیہ نے عوامی اور نجی شعبے میں کولڈ سٹوریج کی تعمیر کے کئی اقدامات کیے ہیں، خاص طور پر سیب پیدا کرنے والے علاقوں کو ترجیح دی گئی ہے۔اس سکیم کے تحت، ہموار علاقوں میںپروجیکٹ لاگت کا 35 فیصد اور پہاڑی و طے شدہ علاقوں میں 50 فیصد سبسڈی دی جا رہی ہے، تاکہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو کولڈ چین انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکے۔