فہم و فراست
یاسین رشید میر
انسانی سماج کی تعمیر میں سب سے بنیادی اور اہم اکائی ’’خاندان‘‘ ہے۔ یہ وہ مرکز ہے جہاں زندگی کے تمام رشتے پروان چڑھتے ہیںاور جہاں سے ایک فرد اپنی شناخت، اخلاق، زبان، رویہ اور شعور حاصل کرتا ہے۔ دراصل خاندان ہی وہ نطفہ ہے جس سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اور معاشرے سے ایک قوم بنتی ہے۔ اگر خاندان صالح ہو تو معاشرہ بھی صالح ہوتا ہے اور اگر معاشرہ صالح ہو تو قوم بھی باوقار اور مضبوط ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی ملک کی ترقی، امن و امان، فلاح و بہبود اور خوشحالی کا دار و مدار اس کے افراد کی تربیت پر ہے۔ قومیں کارخانوں، ہتھیاروں یا دولت سے نہیں بنتیں بلکہ افراد کے کردار اور اخلاق سے بنتی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس تربیت کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ دنیا میں آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تربیت دراصل اُس لمحے سے شروع ہو جاتی ہے جب دو انسان — مرد اور عورت — نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں۔ ان کی سوچ، عادات، گفتار، عبادت، حتیٰ کہ ان کی نیت بھی آئندہ نسل کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ’’ماں کی گود پہلا مدرسہ ہے‘‘ مگر درحقیقت یہ مدرسہ ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
تربیت کسی مصنوعی یا شعوری عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک قدرتی و اخلاقی بہاؤ ہے جو ماحول سے جذب ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تربیت دی نہیں جاتی، ہو جاتی ہے۔ جیسے پھول کو خوشبو سکھانے کی ضرورت نہیں، وہ خود بخود مہک اٹھتا ہے، اسی طرح ایک نیک اور باکردار ماحول میں پلنے والا بچہ خود بخود نیکی، صداقت اور شرافت کا پیکر بن جاتا ہے۔ تربیت کتابوں یا نصیحتوں سے نہیں، بلکہ کردار اور فضا سے منتقل ہوتی ہے۔
اگر والدین خود جھوٹ بولتے ہوں، نماز سے غافل ہوں، گالی دیتے ہوں، بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہوں یا اپنے ہی بچوں سے جھوٹ بول کر دھوکہ دیتے ہوں تو ان کے گھروں میں تربیت نہیں بلکہ بدتہذیبی پنپتی ہے۔ ایسے ماں باپ کے لیے یہ سوچنا محض خود فریبی ہے کہ ان کے بچے صالح، منکسر اور بااخلاق ہوں گے۔ بچے وہ نہیں بنتے جو ہم انہیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ وہ بنتے وہی ہیں جو ہم خود ہوتے ہیں۔ بچے کے نزدیک اس کے والدین دنیا کے سب سے سچے، طاقتور اور کامل انسان ہوتے ہیں۔ اگر یہی نمونہ جھوٹا یا کمزور ہو، تو بچے کے ذہن میں سچائی کی بنیاد ہی کمزور پڑ جاتی ہے۔تربیت دراصل وہ آئینہ ہے جس میں ماں باپ کا چہرہ صاف جھلکتا ہے۔ اگر والدین خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں، تو وہ اپنے بچوں کو کبھی نہیں بدل سکتے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بہتر بنانے سے پہلے خود کو بہتر بنانا ہوگا۔ یہی اصل تربیت ہے۔
گھر کے بعد استاد کا مقام آتا ہے۔ استاد بھی دراصل تربیت کا ایک ستون ہے۔ وہ صرف نصاب نہیں پڑھاتا بلکہ شخصیت تراشتا ہے۔ بدقسمتی سے آج تعلیم کے میدان میں استاد کا کردار محض ایک مشین تک محدود ہو چکا ہے جو نمبروں کے ہدف پورے کراتا ہے مگر روحانی تربیت سے عاری ہے۔ ایک سچا استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کے اندر کی روشنی کو پہچانتا ہے، اس کے رجحان کو سمجھتا ہے اور اسے وہ بننے میں مدد دیتا ہے جو وہ فطرتاً بننا چاہتا ہے۔ لیکن جب استاد اپنی خواہشات اور اپنی مرضی شاگرد پر تھوپ دیتا ہے، تو وہ اس کے تخلیقی جوہر کو مسخ کر دیتا ہے۔ ایک ایسا بچہ جو اپنی دلچسپی کے برخلاف کسی اور میدان میں زبردستی دھکیلا گیا ہو، وہ کبھی اس میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ زندگی بھر دوسروں کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے مگر خود کبھی خوش نہیں رہتا، اور جو شخص خود خوش نہ ہو وہ اپنی قوم کو خوشحالی نہیں دے سکتا۔
تربیت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ محبت اور اعتماد خوف اور سزا سے کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔ بچہ وہ سب کچھ بھول سکتا ہے جو اسے کہا گیا ہو، مگر وہ کبھی نہیں بھولتا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا تھا۔ اگر اس کے ساتھ نرمی، احترام اور محبت کا برتاؤ ہوا ہے تو وہ انہی قدروں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ یہی محبت بعد میں اس کے کردار، زبان، اور رویے میں ظاہر ہوتی ہے۔
ہمارا موجودہ معاشرہ بدقسمتی سے تربیت کے بحران سے گزر رہا ہے۔ گھروں میں ماں باپ مصروف ہیں، اسکولوں میں استاد تجارتی ذہنیت کے اسیر ہیںاور بچے موبائل اسکرینوں کے محتاج ہو چکے ہیں۔ تربیت اب ایک رسمی لفظ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو جدید تعلیم تو دیتے ہیں مگر کردار کی روشنی سے محروم رکھتے ہیں۔ ہم انہیں بولنا سکھاتے ہیں مگر خاموشی کا ادب نہیں، ہم انہیں لکھنا سکھاتے ہیں مگر سچ بولنا نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ذہین تو ہیں مگر مطمئن نہیں، تعلیم یافتہ تو ہیں مگر اخلاق سے خالی۔
قوموں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ تربیت کے عمل کو دوبارہ زندہ کیا جائے — نہ اسکولوں میں مصنوعی لیکچروں سے، بلکہ گھروں میں کردار کی خوشبو سے۔ ہمیں اپنے گھروں کو تربیت گاہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے عمل سے اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ دیانت کیا ہے، سچائی کیا ہے، صبر کیا ہے، اور احترام کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ الفاظ سے کہی گئی نصیحتیں وقت کے ساتھ مٹ جاتی ہیں، مگر عمل سے دیے گئے سبق دلوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ تربیت کسی کتاب، درسگاہ یا نصاب کا محتاج عمل نہیں۔ یہ دراصل کردار، نیت، عمل اور ماحول کی یکجائی کا نام ہے۔ جس طرح روشنی اندھیرے میں خود راستہ بناتی ہے، ویسے ہی سچا کردار اپنے اردگرد کی فضا کو خود تربیت یافتہ بنا دیتا ہے۔لہٰذا اگر ہمیں ایک باشعور، بااخلاق اور باکردار قوم بنانی ہے تو ہمیں اپنے گھروں، اپنے رویوں، اور اپنے کردار سے آغاز کرنا ہوگا۔ تربیت کی بنیاد ہم سے ہے، ہمارے عمل سے ہے۔ کیونکہ آخر میں یہی سچ باقی رہ جاتا ہے کہ —تربیت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے۔
رابطہ۔9797842030
[email protected]