اشرف چراغ
کپوارہ// کرناہ میں اخروٹ کی پیداوارمقامی آبادی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے لیکن حکومت کی سرد مہری کے نتیجے میں لوگو ں کے حوصلے پست ہیں ۔مقامی کاشتکارو ں کا کہنا کہ کرناہ میں زرخیز زمین ،صاف پانی اور خوشگوار موسم کے باعث پھولبانی ،باغبانی اور ماہی پروری کے بے شمار مواقع ہیں لیکن یہ شعبے سرکار ی عدم توجہی کا شکار ہوتے جارہے ہیںاوریہ شعبے کبھی پروان نہیں چڑھ پائے۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے کرناہ میں محکمہ ہارٹیکلچر کے محض 4ملازمین تعینات ہیں ۔مقامی کسانو ں کا کہنا ہے کہ کرناہ کی زمین اس قدر زر خیز ہے کہ یہا ںسیب ،ناشپاتی ،انگور اور دیگر پھل آسانی سے اُگ سکتے ہیں لیکن مناسب دیکھ بال نہ ہونے کے سبب اب یہ درخت مختلف بیماریو ں کی زد میں آچکے ہیں اور اکثر پھل ضائع ہوتا ہے ۔اخرو ٹ کی پیداوار اس خطے کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور ہر سال سینکڑوں ٹن اخروٹ کرناہ سے نکلتے ہیں لیکن بہترین مارکیٹگ اور جدید انتظامات نہ ہونے کی صورت میں کسانو ں کومناسب قیمت نہیں مل پارہی ہے ۔کرناہ کے لوگو ں کا کہنا ہے کہ خطے کے 35فی صد لوگ اس شعبے سے جڑے ہیں لیکن اب مایوس ہیں ۔لائن آف کنٹرول پرواقع ٹیٹوال میں ماضی میں لیمو ں کا ایک خوب صورت باغ ہواکرتا تھا جو اس علاقے کی ایک پہچان تھی لیکن اب وہ با غ بھی خستہ ہوچکاہے ۔مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ اس با غ کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جار ہی ہے جس سے اس علاقہ کی کھوئی ہوئی پہچان واپس آسکے ۔یہ لیموں اس قدر مزے دار ہیں کہ اگر با غ کی طرف توجہ دی جائے تو یہا ں کے لیموں پورے جمو ں و کشمیر میں فرو خت کئے جا سکتے ہیں ۔کرناہ میں پھولبانی کے بھی ایسے بہت سارے وسائل موجود ہیں جس سے علاقہ کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگ سکتے ہیں ۔یہی حال ماہی پروری کا ہے ۔ماہی پروری میں کرناہ کسی خطے سے کم نہیں ہے ۔نالہ بتہ موجی اور کشن گنگا اور قاضی ناگ جیسے نالو ں پر مچھلی فارم قائم کرنے کے بہتر امکانات ہیں ۔سلیمان گائو ں میں ماہی پرورہی کی مثال پہلے سے ہی قائم ہے لیکن محکمہ فشریز کی عدم توجہی سے اس شعبے کو آگے نہیں بڑھایا گیا ۔