عذرا ؔحکاک
چلے کلان کی ایک تاریک رات میں سنسان راستے پر وہ بد نصیب اپنی سُدھ بُدھ کھو کرننگے پائوں چلتے جا رہی تھی۔بظاہر اس کا روم روم سردی کی شدت سے ٹھٹھر رہا تھا لیکن اُس کی روح زندگی کے مصائب کی کڑی دھوپ میں جلتی جا رہی تھی۔اُس کا حیران و پریشان انداز،اُس کی ناک سے بہتا لہو، اُس کی چشم سے رواںاشک اوراِس پر اُسکے افسردہ چہرے پر پڑے انگلیوں کے نشانات صاف طور پر اُس پہ ڈھائے گئے ظلم و ستم کی کہانیاںبیان کررہے تھے۔ اُس کی رنجور آنکھیں اُس کے دل میںاُمڑتے ہوئے بے تحاشادرد کی ترجمانی کررہی تھیں۔اُس کے جسم کی ساخت کو دیکھ کر ہی مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اِس دنیا میںایک اور وجود کو لانے والی ہے ۔اُسے غور سے دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا گویا کہ وہ ذہن میں گردش کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں سوالات لئے اوراق بہ اوراق اپنی کتابِ زندگی پر ایک سرسری نظر ڈال کر اپنے مجرم کی تفتیش میں لگی ہوئی ہے۔شایدیہی سوچتے ہوئے اچانک سے اس کی قوتِ جسم نے اُس کا ساتھ چھوڑدیا ۔ وہ منہ کے بل دھڑام سے زمین پر آگری اور منہ سے بے ساختہ نکلا’’ابو۔۔۔ابوجہل!‘‘
اُس منظر کو آنکھوں سے دیکھ کر میں باسٹھ سالہ بوڑھی عورت، جس کے صرف بال ہی سفید نہیں ہوئے بلکہ گھٹنوں نے بھی تقریباََ جواب دے دیا ہے ،جتنا تیزی سے اُس کی جانب چل کر جا سکتی تھی،میں چلی گئی اور اُسے تھام کر سڑک کے کنارے بٹھا کر اُس سے پوچھ بیٹھی’’بیٹی! کہاں جا رہی ہو ؟ کیا ہوا؟ تمہاری یہ حالت کس نے کی؟‘‘ اس کے منہ سے ایک بار پھر برجستگی سے نکلا ’’ابوجہل‘‘
میں چونک کر بولی ’’ابوجہل؟۔۔۔مطلب ؟۔۔۔تم رہتی کہاں ہو؟۔۔۔ فکر نہ کرو۔۔۔تم مجھے اپنے گھرکا پتا بتا دو۔۔۔ میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں گی۔‘‘ وہ جواب دینے کے بجائے خاموش بت کی مانند سڑک کے دوسرے کنارے کو تاکے جا رہی تھی۔
ایک طرف ٹھنڈی ہوا کے نم آلودہ جھونکے مجھ بُڑھیاکی ہڈیوں کے لئے اذیت ناک ثابت ہو رہے تھے اور دوسری طرف سڑک کے کنارے لگا ہوا وہ بجلی کا لیمپ اندھیری خاموش رات میں ایک آخری روشن ستارے کی مانند ٹمٹمانے لگ گیا تھاجس کے بجھ جانے کے بعدبہت دور تک روشنائی کی امید نہ تھی۔لہٰذا ایک ہاتھ سے دوائیوں سے بھری پوٹلی کو میں نے کَس کے تھا ما اور دوسرا ہاتھ اُس قسمت کی ماری عورت کے کندھے پر رکھ کر پھر ایک بار پوچھ بیٹھی’’بیٹی !بتا بھی دو۔۔۔ تمہارا گھر کہاں ہے؟۔۔۔تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟‘‘ وہ پھر ایک بار بول پڑی’’ابو جہل‘‘
’’ ابو جہل؟ کیا کہہ رہی ہو؟۔۔۔میری تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔ابوجہل تو ہمارے پیغمبرصاحب کے زمانے کا ایک جاہل فرد تھا جس نے معجزئہ شق القمراپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اپنی جہالت کو نہ چھوڑا ۔۔۔‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا
’’اورایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کر کے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ یہ آنکھوں سے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے۔‘‘ وہ بے جھجک بول پڑی
’’ہاں!۔۔۔بالکل درست۔۔ ۔مگر تم بار بار یہ نام کیوں لے رہی ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا
’’کیوں کہ میری زندگی بھی ایسے ہی ایک ابوجہل کی جہالت کی زد میں آکرضائع ہو گئی۔‘‘ اُس نے جواب دیا
’’مطلب ؟‘‘
’’ میراباپ بھی ابوجہل ہے بلکہ اسے تو محلے کے تمام خاص و عام لوگ اسی نام سے جانتے ہیں ۔ اس نے میرے لئے بھی اپنے جیسا ہی شوہر چنا۔۔۔بالکل ابوجہل ۔۔۔دونوں کے دونوں ابو جہل ۔۔۔جہالت کے باپ!‘‘
’’ایسا نہیں کہتے بیٹی!شوہر کے متعلق تومیں خیر کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن ۔۔۔لیکن باپ تو باپ ہوتا ہے نا ۔۔۔تمہاری بھلا ئی کو مدِ نظر رکھ کر ہی بیاہ دیا ہوگا اُس سے۔۔۔ اب اُسے کیا معلوم ہوگا کہ ایسے آدمی سے پالا پڑ جائے گا۔۔۔اُس بے چارے سے انجانے میں غلطی سر زد ہوئی ہوگی۔۔۔اُسے معاف کردو بیٹی!‘‘
میرے کہے ہوئے آخری الفاظ نے جیسے اُس کے وجود پر اور ایک تازیانۂ درد دے مارا تھاجس کا اندازہ اُس کے لہجے سے بہ آسانی لگا یا جا سکتا تھا۔یہ الفاظ اُس کے کان میں پڑتے ہی وہ عورت پاگلوں کی طرح زور دار قہقہہ لگانے کے بعد غمگین تبسم لبوں پہ سجا کر رنجور آنکھوں سے مجھ سفید بالوں والی بُڑھیا کی جانب دیکھ کر بولنے لگی’’نہیں ،ہرگز نہیں۔۔۔اُس جیسے شخص کو میں معاف نہیں کر سکتی ۔۔۔اسے مجھے پر کئے ہوئے ایک ایک ظلم کا حساب دینا ہوگا۔۔۔‘‘
’’ایسا نہیں کہتے بیٹی!‘‘یہ کہہ کر میں اس سوچ میں پڑگئی کہ اس عورت کا باپ اس کے لئے اس حد تک قابل ِنفریں کیسے ہو سکتا ہے۔ والدکی انجانے میںسر انجام دی ہوئی ایک غلطی کی وجہ سے ان کی باقی تمام نعمتوں اور شفقتوںکو نظر انداز کرنا کہاں تک صحیح ہے۔اچانک پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہ میری جانب سوالیہ نظروں سے مخاطب ہو کر کہنے لگی’’میں نے کیا زیادہ مانگا تھا اس سے خدیجہ میڈم !۔۔۔صرف اتنا کہ میری شادی ایک اَن پڑ تاجر کے بجائے کسی پڑے لکھے سے کروا دو۔۔۔بس اتنا ؟اور یہ اتنا سا بھی اس سے نہ ہو سکا۔‘‘
اس دن ایک عرصے بعد کسی کے منہ سے اپنے لئے لفظ ’’میڈم‘‘ سن کر اگرچہ میں خوش ہوگئی تاہم ذہن کو بڑی مشقت دے کر صرف اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ اسی اسکول کی طا لبہ ہے جہاں کسی زمانے میں، میں بطورِ استاد اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔میں حیرت انگیز لہجے میں بولی’’بیٹی!تم مجھے جانتی ہو؟
’’جی ہاں!‘‘
’’مگر معاف کرنا بیٹی !۔۔۔مجھے تمہارا نام یاد نہیں آ رہا۔‘‘
’’میں وہی بد نصیب ہوں میڈم!جس کی وردی اور تیسری جماعت کی کتابیں اس کے باپ نے نظرِ آتش کردی تھی اور پھر آپ نے اپنی تنخواہ سے نئی کتابیں خرید کر دی تھی۔۔۔کچھ یاد آیا آپ کو؟‘‘
’’ہاں ہاں ! یاد آیا۔۔۔تم پروین ہو!۔‘‘میرے لبوں پر بے ساختہ اس کا نام آیا اور ذہن میں اُس آٹھ سالہ معصوم بچی کا خیال گردش کرنے لگا جس کے جسم پر ہر آئے دن نہ صرف پیلے نشان پڑے ہوئے ہوتے تھے بلکہ اس کاجسم اکثرچالیس فیصد زخمی ہواکرتا تھا۔بچوں کے ذہن پر واردات کا اثر تو رہتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شے یا کوئی نہ کوئی لمحہ ایسا ضرور ہوتا ہے جب وہ سبھی کچھ بھول کر ہنستے مسکراتے ہیں لیکن پروین کے ساتھ ایسا بالکل بھی نہ تھا ۔اس کے ذہن میں ایک ایسا ڈربس گیا تھا جو نہ اسے ہنسنے دیتا تھا، نہ مسکرانے ۔نہ وہ بچوں کے ہمراہ کھیلتی تھی اور نہ باقی بچوں کی طرح شرارتیں کرتی تھی۔گویا اس کا بچپن اس کے والد کے کئے ہوئے تشدد نے اس سے چھین لیا تھا۔ پھر ایک دن توحد ہی ہوگئی ۔اس کے والد نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دوران غصے میں آکر اس کی وردی ،کتابیں اور بستہ کونظرِآتش کر نے کے بعد اس آٹھ سالہ معصوم بچی کو بھی اس آگ میں جھونکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنی ماں کی مدد سے کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ان دنوں اُس کے والد کے اپنے اہل و عیال پر ڈھائے ہوئے ظلم کی کہانیوں پر اسٹاف روم میں ہر کوئی اپنے تاثرات بیان کیا کرتاتھا لیکن اس کے والد کے منہ لگنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔ہر کوئی یہ کہہ کر ٹال دیتاکہ وہ تو ابو جہل ہے اور اس سے کیا بحث کرنا۔
ـــ’’جسم کی چوٹیں تو بھر گئی میڈم! مگر دل کی چوٹوں کا کیا کروں؟‘‘ وہ بے ساختہ بول پڑی۔زندگی کے مصائب نے اُسے اِس قدر تھکا دیا تھا کہ چاہ کر بھی اب وہ اُمید کا چراغ اپنے دل کی دہلیز پر سجا نے سے قاصر تھی۔ میں دل مملول ہو کر اُس کی باتیں سنتی جا رہی تھی اور وہ عورت کچھ دیر خاموش رہنے کے بعدمیرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولی’’میڈم! کیا میں ایسے انسان کو معاف کر سکتی ہوں جس نے بچپن میں میری کتابیں جلا کر اِسی آگ میں مجھے بھی جلا کر جان سے مار دینے کی کوشش کی؟۔۔۔کیا میں ایسے اِنسان کو معاف کر سکتی ہوںجس نے شفقت سے بھرا ہاتھ سر پر رکھنا تو دور مجھے کبھی غلطی سے بھی محبت سے نہیں دیکھا ہو؟۔۔۔کیا میں ایسے اِنسان کو معاف کر سکتی ہوںجس نے بھرے مجمع میں بیوی سے جھگڑاکرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اگر اپنے احباب و اقارب کو کھلانے پلانے کے لئے مجھے اپنی بیٹی کو بھی بیچنا پڑا تو میں گریز نہ کروں گا؟۔۔۔کیا میں ایسے انسان کو معاف کر سکتی ہوں جواسکول اور کالج کی فیس میرے منھ پہ مارا کرتا تھا؟۔۔۔ کیا میں ایسے انسان کو معاف کر سکتی ہوں جس نے مجھے عمر بھر بیٹی ہونے کی سزا دی؟‘‘
میری آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب اُمڑ رہا تھا اور میں خاموش رہ کر اسے گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ سوچ رہی تھی کہ میں نے اِس مظلوم عورت پریہ کہہ کر واقعی میں ظلم کر دیا کہ وہ اپنے باپ کو معاف کر دے۔وہ عورت مسلسل روئے جا رہی تھی اور اپنے غم کا اظہار کر رہی تھی جیسے برسوں کے بعد اُس نے کسی سے بات کی ہو اورکسی سے اپنے دل کا درد بانٹا ہو۔
’’میڈم! شاید میں اپنے بچپن کو ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول بھی جائوںاور اُسے معاف بھی کر دوں مگر میرے موجودہ حال کا کیا جسے اُس کے چنے ہوئے آدمی نے جہنم بنا رکھا ہے ۔‘‘ وہ مجھ سے ایک ایسا سوال پوچھ بیٹھی جس کا جواب دینا میرے لئے محال تھا ۔ میں نے ہمت کر کے اُس سے سوال کیا’’بیٹی! کیا تمہارے تایا ماما یا کوئی رشتہ دار نہیں تھا جو اُسے سمجھا سکتے تھے؟‘‘
’’میرا ایسا کوئی ہمدرد نہیں تھا میڈم! جو اس کے منہ لگ کر اپنی تذلیل کرواتا۔۔۔جاہل تو بس جاہل ہوتا ہے۔۔۔اور وہ تو ابو جہل تھا ۔۔۔کسی کی بات پہ ایمان نہ لانے والا۔۔۔صرف خود کو درست سمجھنے والا۔۔۔صرف اپنے من کی کرنے والا۔۔۔اور اس کا داماد بھی ایسا ہی ہے۔۔۔ان پڑ ،گوار اور جاہل۔۔۔‘‘یہ بولتے ہوئے وہ اچانک سے کچھ سوچتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
میں بھی اپنے آنسوں پوچھتے ہوئے کھڑی ہو کر کہنے لگی’’بیٹی ! میر اگھر پاس ہی میں ہے ۔۔۔تم ایک منٹ رکو۔۔۔میں اپنے بیٹے کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔ہم تمہیں گھر چھوڑدیںگے ۔۔۔تم بس یہیں رکنا۔۔۔میں آتی ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کرمیں عجلت میں مڑ کر جانے ہی والی تھی اور وہ عورت کھڑی ہو کر اپنے پیٹ پر اپنا ہاتھ پھیر کر بولتے ہوئے سڑک پر پھر ایک بار چلتے چلتے بڑبڑانے لگی’’نہیں ۔۔۔مجھے اپنی اولاد کو کسی بھی ابو جہل کے حوالے نہیں کرنا۔۔۔مجھے اس کا جینا حرام نہیں کرنا۔۔۔مجھے اِسے سکون و اطمینان کی زندگی دینی ہے۔ یا اللہ! میری مدد فرما۔۔۔میں اپنے اور اپنے بچے کے لئے ہر ابوجہل کے شر سے تیری پناہ مانگتی ہوں۔۔۔‘‘ پیچھے سے ایک بڑی سی موٹر کاری آئی اور اُس عورت اور اُس کے بطن میں پل رہے بچے کو ابوجہل کے شر سے بچا کر اُفق کے پار لے گئی۔ اب سڑک پر خون میں لت پت اُس عورت کی لاش چیخ چیخ کر یہی پوچھ رہی تھی کہ اس سماج میں اور کب تک عورتیں ہر روز کسی ابوجہل کے شر کا نشانہ بنتی رہیں گی۔ کیا ایسی عورتوں کے لئے ہمارے سماج میں کوئی بھی قانون نہیں؟کوئی بھی تدبیر نہیں؟ جن کے ارمانوں کو گھر کی چار دیواری میں سنگسار کیا جاتا ہے۔
���
سرینگر، کشمیر،[email protected]