عبدالرشید ٹھوکر
میں آفس میں کرسی پر بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اندر داخل ہونے والا طفیل تھا، بارہویں جماعت کا ایک دبلا پتلا طالب علم، گھونگریالے بال اور سانولا رنگ۔ سستی نیلی قمیض اور کالی پتلون میں ملبوس، اس کی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں میں ایک التجا تھی۔
“جناب، مجھے ایک مہینے کے لئے چھٹی چاہیے!”
میں نے کتاب سے نظر ہٹائے بغیر کہا: “ابھی تو نصاب مکمل ہونے میں کم از کم دو مہینے چاہیں اور تجھے ایک مہینے کی چھٹی؟”
طفیل نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے، شرمندگی کے احساس کے ساتھ اپنی بات دہرائی:
“جناب، بات ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے ایک مہینے کی چھٹی چاہیے!”
اسکول سے آٹھ کلومیٹر دور جنگلوں کے بیچ ایک پہاڑی پر رہنے والا طفیل، نویں جماعت سے اس اسکول میں پڑھنے والا کبھی غیر حاضر نہیں رہا تھا۔ ایسے طالب علم کے منہ سے ایک مہینے چھٹی کی درخواست سن کر میں اچنبھے میں پڑ گیا۔
میں نے اسے کریدنے کی کوشش کی:
“طفیل، تجھے بارھویں کا امتحان دینا ہے۔ آخری ایام میں اساتذہ اہم اسباق پڑھاتے اور تیاری کراتے ہیں۔ چھٹی سے بہت نقصان ہوگا!”
“جناب، میں نے جو بتایا کہ مجھے چھٹی چاہیے، امتحان کی تیاری میں بعد میں کروں گا۔” اس نے اپنے فیصلے پر اصرار کیا۔
“کیا تمہارا کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے تجھے ایک مہینے کی چھٹی چاہیے؟” میں نے پھر پوچھا۔
طفیل نے بغیر ہچکچاہٹ جواب دیا: “جناب، میں شوپیاں جا کر سیب اتارنے کا کام کرنا چاہتا ہوں!”
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے دانت نکال کر اسے سخت سست کہا: “کیا تجھے اتنی پڑی ہے کہ شوپیاں کے سیب کھانے کے لئے ایک مہینے کی رخصت چاہتا ہے!”
“جناب! میں وہاں سیب کھانے کے لئے نہیں، سیب اتارنے کے لئے جانا چاہتا ہوں۔” آکاش کا لہجہ مضبوط تھا۔
“طفیل، ابھی تمہارے پڑھنے کے دن ہیں، ابھی سے مزدوری کیوں؟” میں نے پوچھا۔
گھونگریالے بالوں والا وہ لڑکا اب ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے اپنے لمبوترے چہرے پر چھائے دکھ کو ظاہر کیا: “جناب، گھر میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ پچھلے سال میرے ابو ایک سڑک حادثے میں انتقال کر گئے۔ میں گھر میں سب سے بڑا ہوں۔ میری والدہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، ہر کوئی انھیں پاگل کہہ کر پکارتا ہے۔”
طفیل لگاتار بولتا گیا، اور میں پہلی بار ندامت سے کسی گڑھے میں خود کو گرتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
“ابھی سیب اُتارنے کا موسم ہے اور یہ کام تھوڑا آسان ہے۔ مجھے پانچ چھ سو روپے کی مزدوری ملے گی۔ بیس پچیس ہزار جمع کر کے میں اپنی تینوں بہن بھائیوں کو کسی حد تک دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔”
اس نے اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مزید کہا: “سر، ہمارے پاس سر چھپانے کے لیے مکان نہیں تھا۔ سرکار نے ایک جھونپڑا منظور کیا، کچھ رشتہ داروں نے مدد کی، مگر وہ جھونپڑا ابھی بھی ناقابل رہائش ہے، نہ اس کی کھڑکیاں ہیں اور نہ دروازے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کے دروازے اور کھڑکیاں لگوا دوں اور موسم سرما کی زمہریری سردی سے اپنے گھر کو محفوظ رکھوں۔”
کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ جس غصے نے مجھے تھوڑی دیر پہلے گھیرا تھا، وہ اب شرمندگی کے دھندلکے میں بدل چکا تھا۔ وہ بارہویں جماعت کا طالب علم نہیں تھا، وہ اپنے خاندان کا واحد ستون تھا۔ میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر کاغذ پر دستخط کر دیے اور ہلکی آواز میں کہا:
“طفیل، جاؤ۔ تمہاری چھٹی منظور ہے۔”
���
ہالسی ڈار ویری ناگ، اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛7006146071