محتشم احتشام
پونچھ//سرحدی ضلع پونچھ کی حدِ متارکہ کے نزدیک رہنے والے عوام نے بنکروں کی کمی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی اور یوٹی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ سرحدی فائرنگ اور گولہ باری کے دوران وہ اپنی جانیں بچانے کے لئے کسی محفوظ پناہ گاہ سے محروم ہیں، حالانکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔مقامی لوگوں نے حکومت کو اْن وعدوں کی یاد دہانی کرائی جو ’آپریشن سندھور‘ کے بعد کئے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس آپریشن میں پاکستان کی جانب سے شدید گولہ باری کے دوران پونچھ میں بڑی تباہی ہوئی تھی اور کئی شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت حکومت نے اعلان کیا تھا کہ فوری بنیادوں پر انفرادی اور کمیونٹی بنکر تعمیر کیے جائیں گے، لیکن مہینوں گزر جانے کے باوجود کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی۔سماجی کارکن محمد فرید ملک اور رشید احمد شاہپوری نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’حکومت صرف دعوے کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عورتیں اور بچے گولہ باری کے وقت پتھروں کے پیچھے چھپنے پر مجبور ہیں۔ بنکر ہماری عیاشی کے لئے نہیں بلکہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے‘‘۔طالب حسین، ایک مقامی شہری نے کہا کہ جب بھی سرحد پر تناؤ بڑھتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کو اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ فنڈز منظور ہو گئے ہیں، مگر زمین پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے انتظامیہ کاغذی کارروائی تک محدود ہے‘۔اہلِ علاقہ نے واضح کیا کہ وہ وعدوں پر یقین کرنے کے بجائے عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر بنکروں کی تعمیر فوری طور پر شروع نہ ہوئی تو احتجاجی دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔ سرحدی عوام نے یہ بھی کہا کہ فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا جائے تاکہ برسوں سے زیرِ التوا منصوبے عملی شکل اختیار کر سکیں۔شہریوں نے مزید کہا کہ پہلے جو بنکر بنائے گئے وہ بھی معیار کے مطابق نہیں تھے، جس کی وجہ سے مختلف بنکروں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور وہ ناقابل استعمال ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں تعمیر کئے جانے والے بنکر معیار کے مطابق ہوں گے اور عوام کی زندگی کی حفاظت کے لیے محفوظ ثابت ہوں گے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سیاست یا اعلانات کا نہیں بلکہ ان کی زندگی اور موت کا سوال ہے، اور حکومت کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ سرحدی عوام کی جانیں محفوظ رہ سکیں۔