۔ 21سے 30سال کی عمر کے جوڑوں کے کیس سب سے زیادہ، سالانہ اوسطاً 1000درخواستیں داخل
بلال فرقانی
سرینگر //سرینگر کی نچلی عدالت میں صبح 9بجے کے بعدفیملی کورٹ کے چیمبر کے باہر جوان سال خواتین ہر روزانتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ کسی کیساتھ چھوٹے بچے ہوتے ہیں تو کوئی اکیلی خاموش بیٹھی ہوتی ہے۔ہرایک کی کہانی ایک دوسرے سے مختلف لیکن وجوہات یکساں نظر آتے ہیں۔جموں وکشمیر عدلیہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران طلاق کی درخواستوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2011میں یہاں 0.34فیصد طلاق کے معاملات عدالتوں میں جاتے تھے لیکن اب عدالتوں میں مجموعی طور پر دائر کیسوں میں5فیصد میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کے ہوتے ہیں جن میں علیحدگی ہوچکی ہوتی ہے۔صرف 2019 میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 3,500درخواستیں جمع کی گئیں، جن میں سے 60فیصد سے زیادہ درخواستیں ازدواجی زندگی میں تلخیوں سے متعلق تھیں تاہم جب سے اب تک اعدادوشمار مرتب نہیںکئے گئے ہیں تاہم ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں یہ تبدیلی بالکل واضح ہے، جب طلاق کی درخواستیں شاذ و نادر ہی دیکھی جاتی تھیں۔فی الوقت ایسے کیسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور سالانہ طلاق کی درخواستیں 1,000سے زیادہ تجاوز کر جاتی ہیں، جو زیادہ تر 30یا 40سال کے عمر کے جوڑوں کی جمع کی گئی ہوتی ہیں۔ آج جو عمر کا گروپ سب سے زیادہ نظر آتا ہے وہ 21-30سال کے درمیان ہے۔ایک ایسی آبادی جسے صرف ایک نسل پہلے علیحدگی کے بارے میں سوچنے کے لئے بھی کم عمر سمجھا جاتا تھا۔معروف ہائی کورٹ ایڈوکیٹ پیرزادہ وحید کا کہنا ہے کہ اب تقریباً دو تہائی کیس اسی عمر سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شادی سے بڑھتی ہوئی توقعات، معاشی بے یقینی، اور خود شادیوں میں تاخیر جیسی وجوہات اہم ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں’’بہت سے نوجوان یہاں کی غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے شادی کو ملتوی کرنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔
لیکن جب شادیاں ہوتی ہیں، جوڑے اکثر ایک دوسرے کے ساتھ وہی بے صبری اور بے اعتمادی کے ساتھ پیش آتے ہیں جو وہ اپنے اردگرد کے معاشرے سے لیتے ہیں‘‘۔سوشل میڈیا کے استعمال،ازدواجی ٹوٹ پھوٹ کے درمیان واضح تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک امریکی سروے میں 80فیصد سے زیادہ طلاق کیسوںکے وکیلوں نے فیس بک یا چیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان معاملات میں کی وجوہات میں زیادہ پایا، جب کہ ہندوستانی رپورٹوں میں علیحدگی کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی وجوہات میں “ڈیجیٹل فاصلہ” شامل ہے۔ کشمیر میں وکلا بھی کہتے ہیں کہ فون اور آن لائن بات چیت اب طلاق کی درخواستوں کے لئے عام محرکات ہیں۔تیاری کی یہ کمی مردوں اور عورتوں دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ایسی کہانیاں پورے کشمیر میں گونجتی ہیں۔ نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا کے دور میں پرورش پائی ہے، اکثر روایتی توقعات اور جدید خواہشات کے درمیان تصادم کا سامنا کرتی ہے۔ خواتین تیزی سے صحبت، مساوات اور جذباتی مدد کا مطالبہ کرتی ہیں، جب کہ مرد روٹی کمانے والے روایتی کرداروں اور شراکت کی نئی توقعات کے درمیان پھٹے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ رہنمائی کے بغیر، نتیجہ اکثر غلط فہمیوں کی صورت میں نکلتا ہے جو تنازعات کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہائی کورٹ کے معروف ایڈوکیٹ لطیف احمد وانی بدلتے ہوئے منظرنامے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “پہلے طلاق کے کیسز بہت کم ہوتے تھے، اب ہمیں اپنے چیمبر میں روزانہ تین سے پانچ کیس آتے ہیں، ان میں سے 80 فیصد 23 سے 45 سال کی عمر کے ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے کی موجودگی کو برداشت نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں شادی اب زندگی بھر کا رشتہ نہیں رہا بلکہ ایک نازک بندھن ،جس کا تجربہ تقریبا ًفورا ہی ہو جاتا ہے، کبھی شرمناک اور آخری حربہ سمجھا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی نہ صرف بڑھتے ہوئے تنازعات کے بارے میں ہے بلکہ ذہنیت میں تبدیلی کے بارے میں بھی ہے۔ “ماضی میں، خاندان مداخلت کرتے تھے، بزرگ ثالثی کرتے تھے، اور مصالحت تقریباً ہمیشہ ہی مقصد ہوتا تھا۔ لیکن آج، برداشت کی بجائے باہر نکلنے کی جلدی ہے، ایک ہی جھگڑا بہت سے جوڑوں کو مشیروں یا والدین کی بجائے وکلا کی طرف دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے سارے کیس بغیر کسی سنجیدہ کوشش کے عدالتوں میں کیوں پہنچ جاتے ہیں۔جہیز کی ممانعت کا ایکٹ اور گھریلو تشدد ایکٹ خواتین کی حفاظت کے لیے اہم ہیں، لیکن بعض اوقات وہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں لیکن ایسے معاملات بھی ہیں جہاں جہیز کے جھوٹے دعوے صرف شوہروں پر دبا ئوڈالنے یا مالی تصفیہ کو محفوظ بنانے کے لیے دائر کیے جاتے ہیں۔”ایڈوکیٹ مس شبنم علی کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جہیز کے جھوٹے دعوئوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے خاندانوں کے درمیان مزید تلخی پیدا ہوئی ہے۔کشمیر میں طلاق کے واقعات بڑھ رہے ہیں، جو صرف شادیوں کا ٹوٹنا نہیں ہے بلکہ توقعات، تیاری اور لچک کا ایک وسیع بحران ہے۔