عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/ مرکزی زیر انتظام علاقہ لداخ کی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ سماجی کارکن سونم وانگچک کے خلاف کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی (وچ ہنٹنگ) کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے جنہیں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
انتظامیہ نے زور دے کر کہا کہ تمام اقدامات قابل اعتماد اطلاعات اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پرکئے گئے ہیں۔
لداخ کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ نے ان اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیا جن میں سرکاری اداروں پر افراد کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
انتظامیہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا: ‘کسی بھی قسم کی وچ ہنٹنگ یا پردہ پوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تمام اقدامات معتبر اطلاعات اور دستاویزات پر مبنی ہیں اور تحقیقات غیر جانبدارانہ طور پر ہو رہی ہیں’۔
بیان میں ہمالیائی انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹوز، لداخ (ایچ آئی اے ایل) کے خلاف مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور غیر ملکی کرنسی کے قوانین کی خلاف ورزیوں کی جاری تحقیقات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
حکام نے نشاندہی کی کہ ایچ آئی اے ایل ایک تسلیم شدہ یونیورسٹی نہیں ہے اس کے با وجود یہ ادارہ ڈگریاں جاری کر رہا ہے جس سے طلبا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے مزید بر آں ادارے نےغیر ملکی فنڈنگ کی مکمل تفصیلات متعلقہ مالیاتی بیانات میں ظاہر نہیں کی ہیں۔
ایس ای سی ایم او ایل کے ایف سی آر اے رجسٹریشن کی منسوخی کے بارے میں، انتظامیہ نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ متعدد تصدیق شدہ خلاف ورزیوں پر مبنی تھا نہ کہ کسی ایک واقعے کی بنیاد پر ایسا کیا گیا۔
انتظامیہ نے وانگچک کی حالیہ سرگرمیوں اور بیانات پر بھی تنقید کی اور کہا کہ حکومت کی جانب سے لداخ کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لئے تاریخ طے کئے جانے کے باوجود بھی وانگچک نے اشعال انگیز بیانات دئے۔
بیان میں کہا گیا: ‘ انہوں (وانگچک) نے عوام بالخصوص نوجوانوں کو بھڑکانے کی کوشش کرنے والے آنشان مقام سے متعدد مواقع پر نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کا حوالہ دیا اور 11 ستمبر 2025 کو این ڈی ایس پارک میں لداخ ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ نوجوان کہہ رہے ہیں کہ وہ امن یا مہاتما گاندھی کے راستے کو ضرروی نہیں سمجھتے ہیں، لوگ سیکورٹی فورسز سے نہیں ڈرتے ہیں اور اگر لوگ باہر نکلے تو اور حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں’۔
سرکاری بیان میں کہا گیا: ‘بھوک ہڑتال سے قبل وانگچک نےمظاہرین کو ماسک، ٹوپیاں اور ہوڈیز پہننے کا مشورہ دیا جس کی وجہ انہوں نے کورنا 19 کو بتایا حالانکہ لداخ میں ایسی کوئی وبا موجود نہیں تھی، اپنے یو ٹیوب چینل “آچوننگستم’ پردیے گئے گذشتہ بیانات میں، وانگچک نے مبینہ طور پر ہندوستان میں “عرب اسپرنگ” طور کی تحریک کی اپیل کی اور تبت و تیونس کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے خود سوزی کو احتجاج کا طریقہ قرار دیا’۔
بیان میں کہا گیا: ‘جب دوسرے رہنما ہجوم کو پر امن رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، تو وانگچک نے کوئی مداخلت نہیں کی اور حالات بگڑنے پر خاموشی کی، مزید بر آں، جب حکومت نے بات چیت کے لئے تاریخوں میں نرمی کی پیش کش کی تو وانگچک نے بھوک ہڑتال جاری رکھی جسے ایک سیاسی اقدام قرار دیا گیا اور جسے بعد میں ہونے والے انتشار کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا’۔
حراست کی بنیادوں پر انتظامیہ نے تصدیق کی کہ وانگچک کو تمام نوٹسز با قاعدہ طور پر فراہم کئے گئے تھے۔
حکومتی بیان میں کہا گیا: ‘لداخ کی انتظامیہ اپیل کرتی ہے کہ قانون کو اس کا راستہ اختیار کرنے دیا جائے،ہمیں یقین ہے کہ ہم سب مل کر پر امن لیہہ شہر میں معمول کی صورتحال واپس لائیں گے اور بات چیت کے عمل کو جاری رکھیں گے’۔
انہوں نے کہا: ‘لیہہ شہر میں حالیہ مظاہروں کے دوران شہریوں کی ہلاکت نے مرکز اور لداخ کے گرپوں کے درمیان جاری مذاکرات پر سایہ ڈال دیا ہے جو ریاستی درجہ اور چھٹے شیڈول میں شمولیت کے مطالبات کر رہے ہیں’۔
قابل ذکر ہے کہ لیہہ اپیکس باڈی (ایل اے بی) اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس( کے ڈی اے) دونوں 6 اکتوبر کو مرکزی حکومت سے ہونے والی بات چیت سے علاحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سونم وانگچک کے خلاف کسی بھی انتقامی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: لداخ حکومت
