عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کردہ اس نوٹیفکیشن کو چلینج کرنے والی درخواست پر سماعت کے لئے تین ججوں پر مشتمل خصوصی بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جموں وکشمیر کے محکمہ داخلہ نے 5 اگست کو کشمیر سے متعلق 25 کتابوں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
محکمہ داخلہ نے اپنی نوٹیفکیشن میں کہا تھا: ‘ یہ لٹریچر نوجوانوں کی ذہنیت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، جس سے شکایت، مظلومیت اور دہشت گردی کو ہیرو ازم کے طور پر دیکھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ ان تحریروں کے ذریعے تاریخی حقائق کو مسخ کرنا، سیکیورٹی فورسز کو بدنام کرنا، مذہبی شدت پسندی، عوام میں بیگانگی پیدا کرنا اور دہشت گردی کی طرف راہ ہموار کرنا جیسے منفی رجحانات کو فروغ دیا گیا’۔
ان کتابوں کے مصنفین میں ارون دھتی رائے اور اے جی نورانی شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں سیاسی تبصرے اور تاریخی بیانات شامل ہیں جن میں معروف آئینی ماہر نورانی کی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012، کشمیر ایٹ دی کراس روڈ اینڈ کنٹیسٹڈ لینڈز از سمنترا بوس، ان سرچ آف اے فیوچر: دی کشمیر سٹوری از ڈیوڈ دیوداس، ارون دھتی رائے کی آزادی اور اے ڈسمنٹلڈ اسٹیٹ: دی انٹولڈ سٹوری از انورادھا بھسین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
یہ معاملہ گذشتہ روز ایڈوکیٹ ورندا گروور کی طرف سے چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا گیا۔
یہ درخواست بھارتیہ نارگرک سرکشا سنتہا (بی این ایس ایس) 2023 کی دفعہ 99(2) کے تحت دائر کی گئی ہے اور درخواست گذاروں میں ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل کپل کاک، مصنف ڈاکٹر سمنتر بوس، ڈاکٹر رادھا کمار اور سابق بیورو کریٹ وجاہت حبیب اللہ شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ خصوصی بنچ کی تشکیل کا حکم جلد از جلد جاری کیا جائے گا جیسا کہ بی این ایس ایس کے تحت ضروری ہے۔
درخواست گذاروں کا موقف ہے کہ ان 25 کتابوں کا موضوع زیادہ تر کشمیر کی سماجی و سیاسی زندگی اور اس کی تہذیبی تاریخ سے جڑی سیاسی جد وجہد پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ‘یہ کتابیں، جن میں سے اکثر علمی نوعیت کی ہیں، تاریخ کے شعبے میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں’۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ‘ان کی کتابوں کی ضبطی کا حکم بلا جواز اور غیر معقول ہے اسی لئے بی این ایس ایس کی دفعہ 99 کے تحت دستیاب قانونی راستے کو اپنایا گیا ہے’۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ: ‘ضبطی کے حکم میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ 25 کتابیں کس بنیاد پر’جھوٹے بیانیہ’ یا ‘علاحدگی پسندی’ کو فروغ دیتی ہیں اور ضبط کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس میں کتابوں کے کسی مخصوص حصے کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا گیا’۔
درخواست میں کہا گیا: ‘صرف عمومی بیانات دینا اور قانون کی دفعات کا حوالہ دینا، یہ ظاہر کئے بغیر کہ ان کتابوں کے کس مواد سے یہ نتیجہ نکالا گیا، بی این ایس ایس کے تحت دیے گئے’ریزنڈ آرڈر’کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے’۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے: ‘یہ حکم آزادی اظہار رائے اور عوام کے جاننے کے حق پر براہ راست پابندی ہے جو کہ آئین کے دفعہ 10 (1) (اے) کے تحت بنیادی حق کا حصہ ہے اس لئے اس پر پرپورشنلٹی ٹیسٹ کے پیمانے پر بھی پورا اترنا ضروری ہے جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے کئی فیصلوں میں واضح کیا ہے’۔
درخواست میں کہا گیا: ‘یہ عرض کیا جاتا ہے کہ ضبطی کا حکم ‘ کم سے کم مداخلت’ کے اصول پر بھی پورا نہیں اترتا اور اس لئے یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہے بطور شہری، جو تاریخ و ادب جیسے علمی شعبوں کے تحفظ اور عوام کو جاننے کے حق کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں’۔
درخواست گذاروں نے اس حکم کو کالعدم قرار دینے کے لئے عدالت کی طرف رجوع کیا ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ 25 کتابوں کی ضبطی کے خلاف درخواست پر خصوصی بنچ تشکیل دے گی
