فکر انگیز
توصیف احمد وانی
جدید دنیا میں ٹیکنالوجی کو بذاتِ خود خیر سمجھ لینا ہمارے معاشرتی رویّے کا ایک المیہ بن گیا ہے۔ مسلم معاشرہ بھی اسی غلطی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح سرمایہ دارانہ دنیا میں دولت کا حصول بذاتِ نیکی اور ترقی کا نشان سمجھا گیا، اسی طرح موجودہ دور میں عالمی سطح پر ایجاد و اختراع کو بھی بغیر کسی اخلاقی احتساب کے خیرِ مطلق مان لیا گیا ہے۔ اس رویّے نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ کسی نئی ایجاد کا جشن منانا یا اسے بلا تنقید قبول کرنا ہمارے لئے ضروری ہے، گویا کسی شے کے اچھے یا بُرے ہونے کا معیار محض اس کا نیا ہونا رہ گیا ہے جو کہ ایک دجل اور جہالت ہے۔
حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی شے کی قدر و قیمت اس بات پر موقوف ہے کہ وہ عبدیت (servitude to Allah) اور خدا کے بتائے ہوئے اخلاقی اصولوں کے تابع ہو۔ ٹیکنالوجی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ بدقسمتی سے جب ہم اس مقدمے کو پیش کرتے ہیں تو اکثر لوگ عسکری میدان کی مثالیں (مثلاً دفاعی ہتھیار یا فوجی ایجادات) پیش کرکے بحث کو ایک دوسرا رخ دے دیتے ہیں گویا اگر عسکری ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تو باقی تمام زندگی میں بھی ٹیکنالوجی بلا چون و چرا خیر ہے۔ حالانکہ عسکری ٹیکنالوجی ایک مخصوص میدان ہے، جو معاشرے کی بقا اور وجودی خطرات کے تدارک کے لیے دفاع کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس دفاعی ضرورت کے ساتھ اس عسکری ٹیکنالوجی پر بھی اخلاقی سوالات لاگو ہوتے ہیں، جیسے غیر ضروری تباہی، ظلم کے ساتھ جارحیت یا ایسے ہتھیاروں کا استعمال جو بلا تفریق انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔
ٹیکنالوجی سے متعلق اصل اور زیادہ اہم مسئلہ اس کا سماجی اور انفرادی پہلو ہے۔ آج ایک عام آدمی کی روزمرہ میں ٹیکنالوجی جس حد تک دخیل ہے، سوشل میڈیا کی لت، گیمنگ، شاپنگ وغیرہ، ان میں عسکری ٹیکنالوجی کا براہِ راست کوئی کردار نہیں ہوتا۔ عسکری ایجادات عموماً پبلک ڈومین تک پہنچتی بھی نہیں ہیں، یا برسوں بعد ان کے کچھ پہلو عام زندگی میں منتقل ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ ٹیکنالوجی جو سرمایہ دارنہ منفعت کے لئے کام کررہی ہے، اس کے گہرے اثرات معاشرتی رویّوں، تعلقات، علم و فکر اور اخلاقی سانچوں پر پڑتے ہیں۔
مثال کے طور پر سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس نے معاشرتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ محض معلومات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ انسان کی توجہ، ترجیحات، خواہشات اور حتیٰ کہ اس کی روحانی کیفیت کو بھی تشکیل دی رہا ہے۔ اسی طرح صارفیت (consumerism) کو بڑھاوا دینے والی ٹیکنالوجی، انسان کو مسلسل خواہشات اور مقابلے کی دوڑ میں دھکیلے جارہے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی کا استعمال عبدیت اور اخلاقیات کے تابع نہ ہو تو یہ انسان کے انسان ہونے کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور انسان کو اپنے مقصدِ وجود سے غافل کر دیتا ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی محض ایک آلہ نہیں ہے، وہ خود ایک وجود ہے، پیغام ہے اور فعال طریقے سے انسانوں کے ساتھ تعلق بناتا ہے۔
لہٰذا مسلم معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو محض جدیدیت یا ترقی کی علامت نہ سمجھے بلکہ اس پر تنقیدی نظر ڈالے۔ ایجادات کے جشن منانے سے پہلے یہ سوال کیا جائے کہ یہ ایجاد کس اخلاقی معیار کے تحت استعمال ہوگی؟ کیا یہ انسان کی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی بہتری میں مددگار ہے یا اسے مزید مادہ پرست بنا رہی ہے؟ لیکن مغرب کے وجود کے سامنے ہم اس حد تک سر تسلیم خم ہیں کہ اس طرح کا سوال سوچنا بھی ہمیں جرم لگتا ہے اور شکست کا خوف جکڑ لیتا ہے حالانکہ ہم پہلے ہی شکست خوردہ ہیں اور ہمیں وہ ٹیکنالوجی اس شکست سے نہیں نکال سکتی، جس کے پیچھے کا اعتقاد انسان پرستی اور مقصد حصول لذت دنیا ہو۔ ہمیں ٹیکنالوجی کو بھی اسلامی اقدار
کے تابع کر کے اس کا صحیح مقام متعین کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ خدا پرستی کے اعتقاد کے ساتھ اور آخرت کو مقصد بناکر ایجاد کئے جائیں اور ایجاد کو پرکھے جائیں۔
[email protected]