جرسِ ہمالہ
میر شوکت پونچھی
اگر دنیا کو ایک عظیم تھیٹر مانا جائے، جہاں ہر ملک، ہر قوم، اور ہر ادارہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تو اقوام متحدہ (UNO) اور انسانی حقوق کے ادارے اس اسٹیج کے وہ دو مرکزی کردار ہیں جو ہر منظر میں موجود تو ہوتے ہیں، لیکن ان کا کردار صرف پس منظر کی زینت بنانے تک محدود ہے۔ یہ دونوں ادارے جیسے کسی عظیم الشان ناٹک کے وہ اداکار ہیں جو اپنی خوبصورت وردیوں، چمکدار تمغوں اور بلند بانگ جملوں کے ساتھ اسٹیج پر چہل قدمی کرتے ہیں، لیکن جب پردہ اٹھتا ہے تو نہ کوئی ڈائیلاگ یاد ہوتا ہے نہ کوئی عمل دکھائی دیتا ہے۔ بس ایک مصنوعی ہلچل، ایک بے معنی شور اور ایک ایسی مصروفیت جو کبھی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کو دیکھیں تو یہ ایک عظیم الشان محل لگتا ہے، جس کے دروازوں پر دنیا کے ہر رنگ کے جھنڈے لہراتے ہیں، جیسے کوئی عالمی میلہ سجا ہو۔ یہ جھنڈے ہوا میں لہراتے ہیں لیکن ان کی لہر میں کوئی پیغام نہیں، صرف ایک خالی دکھاوا ہے۔ عمارت کے اندر چمکتے ہوئے ماربل کے فرش، عظیم الشان چھتیں اور دیواروں پر لگے نقش و نگار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں سے دنیا کی تقدیر بدلی جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ اس عمارت کے قلب میں داخل ہوتے ہیں، جہاں عالمی کانفرنس ہال کی عظیم الشان میز کے گرد دنیا کے لیڈر بیٹھے ہیں، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے ہیڈ فون میں گم ہے، مترجم کی آواز سنتے ہوئے سر ہلاتا ہے اور ہر تقریر کے بعد تالیاں بجاتا ہے، جیسے کوئی بچہ اسکول کے ڈرامے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔ لیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو یہ عظیم الشان ہال ایک ایسی بند گلی بن جاتا ہے جہاں سے کوئی راستہ نہیں نکلتا۔یہاں ہر اجلاس ایک رسمی رقص کی مانند ہے۔ نمائندے اپنی اپنی باری پر کھڑے ہوتے ہیں، اپنی تیار کردہ تقریریں پڑھتے ہیں، جن میں الفاظ تو بھاری بھرکم ہوتے ہیں، لیکن معنیٰ سے خالی۔’’امن ہماری اولین ترجیح ہے۔‘‘ ایک کہتا ہے، اور پھر’’لیکن‘‘ کا لفظ اس کے جملے کو لے ڈوبتا ہے۔’’ہم انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘ دوسرا اعلان کرتا ہے، لیکن اس کے بعد ایک لمبی فہرست آتی ہے کہ کیوں فوری عمل ممکن نہیں اور جب اجلاس ختم ہوتا ہے، تو صدرِ اجلاس اپنا ہتھوڑا بجاتا ہے، جیسے کوئی جادوگر اپنی چھڑی ہلاتا ہو، اور اعلان کرتا ہے،’’یہ معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کیا جاتا ہے۔‘‘ باہر دنیا میں آگ لگ رہی ہوتی ہے، شہر تباہ ہو رہے ہوتے ہیں، بچوں کے خواب راکھ بن رہے ہوتے ہیں، لیکن اس ہال کے اندر سب کچھ ٹھنڈا اور پرسکون ہے۔ ایئر کنڈیشنر کی ہلکی سی سرسراہٹ، چائے کے کپوں کی کھنک، اور نمائندوں کے درمیان ہلکی پھلکی باتیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسی مصروفیت کا ڈھونگ ہے جو کبھی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔
اب ذرا انسانی حقوق کے اداروں کے دفتر کا نظارہ کریں۔ یہ جیسے کوئی پرانا سرکاری دفتر ہو، جہاں فائلیں گرد آلود الماریوں میں دبی پڑی ہیں اور ہر میز پر کاغذوں کا ایک ڈھیر لگا ہے۔ جب کہیں کوئی ظلم ہوتا ہے،چاہے وہ کسی دور دراز گاؤں میں ہو یا کسی شہر کے قلب میں،تو ان دفاتر میں اچانک ہلچل مچ جاتی ہے۔ کوئی فائل اٹھائے بھاگ رہا ہے، کوئی پریس ریلیز تیار کر رہا ہے، کوئی کیمرے کے لیے اپنا کرتا صاف کر رہا ہے۔ لیکن یہ ہلچل اسی طرح کی ہے جیسے بارش کے بعد سڑک پر کیچڑ میں پھسلتے لوگوں کی بھاگ دوڑ۔ سب مصروف ہیں، لیکن نتیجہ وہی۔ ایک رسمی بیان، ایک تصویر اور ایک رپورٹ جو کبھی کسی کی زندگی نہیں بدلتی۔
انسانی حقوق کے اداروں کی ٹیمیں جب کسی’’متاثرہ علاقے‘‘ کا دورہ کرتی ہیں، تو منظر کچھ یوں ہوتا ہے جیسے کوئی سیاحتی ٹولہ نکل پڑا ہو۔ ایئرپورٹ سے سیدھا پانچ ستارہ ہوٹل، جہاں ہوٹل کے کانفرنس ہال میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام ہوتا ہے۔ کیمرے چمکتے ہیں، مائیک جگمگاتے ہیں اور ایک نمائندہ کھڑا ہو کر کہتا ہے،’’ہم اس ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘‘ پھر کچھ تصاویر کھنچتی ہیں، جن میں وہ تباہ شدہ عمارتوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، جیسے کوئی فلم اسٹار اپنی نئی فلم کا پروموشن کر رہا ہو۔ رپورٹ تیار ہوتی ہے، جس کے آخر میں وہی پرانا جملہ ہوتا ہے،’’ہم اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ یہ تشویش ایک ایسی چھتری کی مانند ہے جو بارش کے بعد کھولی جاتی ہے،بے وقت اور بے فائدہ۔
یہ دونوں ادارے ایک عجیب سی ہم آہنگی میں کام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے ایک بوڑھا پنڈت ہے، جو گاؤں کے چبوترے پر بیٹھ کر ہر جھگڑے کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے،’’بیٹا، کل پنچایت بٹھائیں گے۔‘‘ لیکن وہ کل کبھی نہیں آتا۔ دوسری طرف، انسانی حقوق کے ادارے اس مولوی صاحب کی مانند ہیں جو ہر جمعہ کے خطبے میں دعا مانگتے ہیںِ’’اے اللہ، ظلم ختم فرما۔‘‘ لیکن جب آپ ان سے کہتے ہیں کہ ذرا اس ظالم کا ہاتھ پکڑیں جو محلے میں دندناتا پھرتا ہے، تو جواب ملتا ہے،’’بھائی، یہ ہمارا کام نہیں۔ ہم تو صرف نصیحت کرتے ہیں۔‘‘
ان اداروں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ خود کو ہر عالمی بحران کا محور بنائے رکھتے ہیں۔ جب کوئی جنگ چھڑتی ہے، جب کوئی قوم تباہ ہوتی ہے، جب بچوں کے اسکول بموں سے اڑا دیے جاتے ہیں تو یہ ادارے فوراً اپنی مشینری حرکت میں لاتے ہیں۔ لیکن یہ مشینری ایک ایسی پرانی گاڑی کی مانند ہے جو بہت شور مچاتی ہے، دھواں اڑاتی ہے، لیکن ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتی۔ رپورٹیں لکھی جاتی ہیں، اجلاس بلائے جاتے ہیں، قراردادوں کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں، لیکن زمین پر کچھ نہیں بدلتا۔ یہ قراردادوں کے ڈھیر اس پرانے کباڑی کی دکان کی مانند ہیں، جہاں ہر چیز موجود ہے، لیکن کوئی چیز کام کی نہیں۔
ان اداروں کی عظمت ان کے دکھاوے میں ہے۔ وہ دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے اور سوچ رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں ان کا دیکھنا نیم خوابیدہ آنکھوں سے ہوتا ہے، ان کا سننا مترجم کی آواز تک محدود ہے اور ان کا سوچنا اگلے اجلاس کی تاریخ طے کرنے سے آگے نہیں بڑھتا۔ یہ ایک ایسی مصروفیت کا مجسمہ ہے جو کبھی حرکت میں نہیں آتا۔
اگر ہم ان اداروں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو ہر صفحہ ایک ہی کہانی سناتا ہے۔ وعدوں کی دھول، قراردادوں کی راکھ اور عمل کی کمی۔ جب بوسنیا میں نسل کشی ہو رہی تھی، تو اقوام متحدہ کے فوجی نیلی ٹوپیاں پہنے تماشائی بنے رہے۔ جب روانڈا میں لاکھوں لوگ قتل ہو رہے تھے، تو انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹیں فائلوں میں دب کر رہ گئیں۔ جب شام کے شہر تباہ ہو رہے تھے، تو اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں صرف چائے کے کپ گرم ہو رہے تھے اور جب فلسطین میں بچوں کے خواب بموں سے چھلنی ہو رہے تھے، تو انسانی حقوق کے اداروں کی’’تشویش‘‘ کاغذوں پر سیاہی بن کر رہ گئی۔
یہ ادارے ایک ایسی دنیا کے لیے بنائے گئے تھے جہاں امن، مساوات اور انصاف کے خواب سچ ہو سکتے تھے۔ لیکن آج یہ صرف ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں،ایک خواب جو ہر صبح ٹوٹتا ہے، لیکن ہر شام دوبارہ بُنا جاتا ہے۔ ان کے دفاتر کے در و دیوار پر سنہری حروف میں لکھا ہے،’’ہم ہر مسئلے پر غور کریں گے، لیکن کبھی کچھ کریں گے نہیں۔‘‘ یہ ان کا فلسفہ ہے، ان کی کامیابی ہے اور ان کی میراث ہے۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اس عظیم تھیٹر کے وہ کردار ہیں جو ہر ایکٹ میں موجود ہوتے ہیں، لیکن کبھی اسکرپٹ کا حصہ نہیں بنتے۔ وہ اسٹیج پر چہل قدمی کرتے ہیں، اپنی وردیوں کی چمک دکھاتے ہیں اور پھر پردہ گرنے سے پہلے غائب ہو جاتے ہیں۔ دنیا ان کے بغیر بھی چلتی رہتی ہے اور ان کے ساتھ بھی وہی رہتی ہے،ایک ایسی دنیا جہاں ظلم کی آگ بھڑکتی رہتی ہے اور یہ ادارے صرف دھوئیں کے بادلوں کو دیکھتے رہتے ہیں، اپنی تشویش کے بیانات لکھتے رہتے ہیں اور اپنی مصروفیت کے مجسموں کو چمکاتے رہتے ہیں۔