عظمیٰ نیوز سروس
ممبئی// مہاراشٹر گزشتہ دو دن سے لگاتار بارش کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں ریاست کے کئی اضلاع میں تباہی مچ گئی ہے ۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بارش سے متعلقہ حادثات میں دس افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان میں ناسک سے چار، عثمان آباد اور احمد نگر سے دو دو جبکہ جالنہ اور ایوت محل سے ایک ایک ہلاکت درج کی گئی ہے ۔ بچاؤ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں اور اب تک متاثرہ علاقوں سے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے ۔ مراٹھواڑہ خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جس میں اورنگ آباد، جالنہ، بیڑ، لاتور، ناندیڑ، ہنگولی اور پربھنی کے اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی دوران ممبئی میں بھی ہفتہ کی رات سے موسلادھار بارش کا سلسلہ جاری ہے جس نے ریاستی سطح پر مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ ناسک میں گوداوری ندی خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے جس سے رام کنڈ علاقے کے کئی مندر ڈوب گئے ہیں۔ ریاستی حکام نے پورے مہاراشٹر میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کی سولہ ٹیمیں تعینات کر دی ہیں جبکہ مزید دو ٹیمیں پونے میں ہنگامی صورتحال کے لیے اسٹینڈ بائی پر رکھی گئی ہیں۔ پونے کی ملشی تحصیل کے تمہنی گھاٹ میں اس مانسون کے موسم میں اب تک 9000 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے جس نے اسے اس سال ہندوستان کا سب سے زیادہ بارش والا علاقہ بنا دیا ہے ، یہاں تک کہ میگھالیہ کے چیراپونجی اور ماوسینرام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے تھانے میں ایک جائزہ اجلاس کے بعد کونکن خطہ کے تمام محکموں کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایت دی ہے ۔ انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں سے مکینوں کو فوری منتقل کرنے ، اسکولوں اور کالجوں کو پناہ گاہوں میں بدلنے اور عوام کو درست معلومات پہنچانے پر زور دیا۔ شندے نے خبردار کیا کہ اس بحران کے دوران افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ادھر پانی کی سطح بڑھنے پر بھاتسا ڈیم کے پانچ دروازے کھول دیے گئے ہیں اور نشیبی دیہات کو الرٹ کیا گیا ہے ۔ بجلی کی لائنوں، گرے ہوئے درختوں اور دیگر خطرات پر بھی کڑی نگرانی رکھی جا رہی ہے ۔ اسی کے ساتھ ریاستی حکومت نے جولائی اور اگست کی بارشوں میں نقصان اٹھانے والے کسانوں کے لیے 1339 کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے جبکہ ستمبر کے نقصانات کا جائزہ ابھی جاری ہے ۔ موجودہ وقت میں ریاست فطرت کی بے لگام بارشوں سے نبرد آزما ہے اور حکام، کارکنان اور مقامی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قیمتی جانوں کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔