فکر انگیز
بابر حسین
نیپال کی سیاسی ہلچل نے برصغیر کے سیاسی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا۔ 4 ستمبر 2025 کو حکومت نے 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی، جسے ’’جعلی خبروں‘‘ کو روکنے کے اقدام کے طور پر پیش کیا گیا، مگر یہ فیصلہ نوجوانوں کے غصے کا سبب بن گیا۔ دارالحکومت کٹھمنڈو سے صوبائی شہروں تک ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ نیپال اسٹوڈنٹ یونین اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، احتجاج کے دوران کم از کم 19 سے 22 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، اور 9 ستمبر 2025 کو وزیراعظم کے پی شرما اولیٰ کو استعفیٰ دینا پڑا۔
یہ منظر سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی گونجا۔ آئی ایم ایف اور مقامی نیوز ایجنسیز کے مطابق سری لنکا میں 2022 کے معاشی بحران میں مہنگائی کی شرح 69.8 فیصد تک جا پہنچی، ایندھن اور خوراک کی قلت نے لاکھوں عوام کو احتجاج پر مجبور کیا اور صدر گوٹابایا راجاپکشے جولائی 2022 میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہیومن رائٹس واچ اور بی بی سی کے مطابق بنگلہ دیش میں جولائی 2024 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ریاستی جبر اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرے شروع کیے، جو پورے ملک میں پھیل گئےاور کم از کم 200 افراد جاں بحق ہوئے۔ بالآخر 5 اگست 2024 کو وزیراعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دینا پڑا۔
یہ تمام واقعات بتاتے ہیں کہ برصغیر کی نوجوان نسل ایک چھوٹی سی چنگاری سے بڑے سماجی و سیاسی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024 کے مطابق 180 ممالک میں بنگلہ دیش کا درجہ 149 (سکور 24)، پاکستان 135 (سکور 29)، نیپال 110 (سکور 35)، سری لنکا 121 (سکور 34) اور ہندوستان 96 (سکور 38) ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کی رپورٹ 2024 کے مطابق ہندوستان میں لوک سبھا کے 46 فیصد ارکانِ پارلیمنٹ کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں، جو 2019 کے 43 فیصد سے زیادہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اقتدار عوامی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات اور خاندانی سیاست کا آلہ بن چکا ہے۔
طاقتور اشرافیہ ہمیشہ نوجوانوں کے سوال سے خوفزدہ رہتی ہے، اسی لیے نصاب میں یکطرفہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے، میڈیا حکومتی بیانیہ پیش کرتا ہے اور عدالتیں طاقتور کو تحفظ دیتی ہیں۔ مگر جب نسلِ نو بیدار ہوتی ہے تو کوئی نظام ان کے سوال کو دبا نہیں سکتا۔ نیپال کے طلبہ نے ثابت کیا کہ جمہوریت محض کاغذی دفعات نہیں بلکہ عوامی شعور کی آگ ہے۔ سری لنکا نے دکھایا کہ خاندانی سیاست کی دیواریں ایک دن میں زمین بوس ہو سکتی ہیں اور بنگلہ دیش نے یاد دلایا کہ طاقتور سے طاقتور حکومت بھی سوال اٹھانے والی نسل کے سامنے جھک جاتی ہے۔
تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ انقلابات ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔ فرانسیسی انقلاب (1789-1799) نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور آزادی، مساوات اور اخوت کے نعروں کو بلند کیا، مگر 1793-1794 کی ’’دہشت کی حکومت‘‘ میں بدل گیا، جہاں 16,000 سے 17,000 افراد گیلوٹین پر چڑھے اور لاکھوں گرفتار ہوئے، جس کا نتیجہ ناپولین کی آمریت کی شکل میں نکلا۔ عرب بہار (2010-2012) نے تیونس، مصر، لیبیا اور شام میں عوامی بغاوتوں کو جنم دیا، مگر داخلی تقسیم، فوجی مداخلت اور بیرونی دخل اندازی نے انہیں ناکام بنا دیا۔ مصر میں فوج نے اقتدار سنبھالا، لیبیا اور شام خانہ جنگی میں ڈوب گئے اور صرف تیونس میں جزوی جمہوری کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ انقلاب تخریبی قوت ضرور رکھتا ہے، لیکن تعمیر کے بغیر محض تباہی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
یہ سب حقائق برصغیر کے لیے ایک واضح پیغام ہیں۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہے، جو ستاروں کی مانند چمکتی ہے مگر بادلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر حکومتیں اصلاحات نہ کریں تو یہی نوجوان کل کے ایوانوں کو لرزا دینے والا طوفان بن جائیں گے۔ خیالات کی طاقت تخت و تاج سے کہیں بڑی ہے، جیسے ایک چھوٹی سی شرارہ جنگل کو خاکستر کر دیتی ہے۔ اگر آج کا لمحہ ضائع کر دیا گیا تو کل کی سڑکیں انہی سوالات کی گونج سے بھر جائیں گی جو یا تو نئی صبح کی نوید لائیں گی یا پرانی تاریکی کو اور گہرا کر دیں گی۔