اسد مرزا
حالیہ عرصے میں فلسطینی ریاست کے بارے میں بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ بہت سے مغربی ممالک خاص طور پر یورپی یا سفید فام نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ برطانیہ نے تازہ ترین لہر کی قیادت کی ہے۔ وزیر اعظم کیئر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکی کے پیش نظر، ہم امن اور دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘برطانیہ کے بعد کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کا نمبر آتا ہے۔ 22 ستمبر کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی اس کی پیروی کی، مالٹا، موناکو، لکسمبرگ اور سان مارینو نے بھی اسی طرح کے فیصلوں کا اعلان کیا۔یہ اقدام مسئلہ فلسطین کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس میں سامنے آیا، جس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس نے امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر کی۔مجموعی طور پر اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 153 ،یعنی تقریباً 80 فیصد اب فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ دیگر ریاستوں نے جنہوں نے حال ہی میں اس طرح کی شناخت کا اعلان کیا ہے ان میں جنوبی افریقہ، برازیل، ارجنٹائن، چلی اور سویڈن کے ساتھ ساتھ بارباڈوس، جمیکا، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو، آئرلینڈ، ناروے، اسپین، سلووینیا، آرمینیا اور میکسیکو کے نام بھی شامل ہیں۔اگر ہندوستان کے موقف کی بات کی جائے تو اس نے دہائیوں پہلے یعنی 1988 میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرلیا تھا اور وہ ایسا کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک بن گیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے چیئرمین یاسر عرفات نے الجزائر میں فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، ہندوستان کی موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے تحت، ہندوستان کا ردِعمل حالیہ عرصے میں یا یوں کہیں کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے زیادہ تر خاموش یا ذو معنی رہا ہے۔اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ موجودہ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے بہت بڑھے ہیں۔
1988 میں درجنوں عرب، ایشیائی اور افریقی ریاستوں نے فوری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا تھا۔ جس کے بعد کئی سالوں میں ترقی پذیر دنیا کی طرف سے یعنی کہ گلوبل ساؤتھ کی طرف سے PLO کی پالیسیوں کی اور فلسطینیوں کی خود مختاری کی مانگ کی پیروی کی۔ اتفاق سے 1974 میں، ہندوستان پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے PLO کو فلسطینی عوام کا واحد اور جائز نمائندہ تسلیم کیا تھا۔تواب ،عرفات کی طرف سے فلسطینی ریاست کے اعلان کے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے بعد مغربی دنیا نے اچانک فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیوں کیاہے؟اور کیوں مغربی ممالک میں اس کو تسلیم کرنے کی ہوڑ سی لگ گئی ہے؟
اس کی ایک مذموم وضاحت ہو سکتی ہے، اپنے ضمیر کو تسکین دینا۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپی سامیت دشمنی ہولوکاسٹ پر منتج ہوئی تھی، جس نے مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ تنازعہ کے بیج بوئے تھے۔ 1948 کے اقوام متحدہ کے فیصلے میں برطانوی حکومت کے تحت فلسطین کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، ایک یہودی اور ایک عرب۔ اس کو عربوں نے چیلنج کیا تھا۔ آج بہت سے فلسطینی اس بات پر متفق ہوں گے کہ یہ ایک تباہ کن غلطی تھی۔ بعد میں تین بڑی عرب۔اسرائیل جنگیں، اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان مذاکرات کے کئی دور اور بعد میں اسلام پسند گروپس۔ جن میں سب سے اہم حماس ہے، اور لامتناہی مذاکرات، متعدد امن کانفرنسیں، دو فلسطینی بغاوتوںاور نقل مکانی یعنی کے نکبہ اور اس کے درمیان راہ استوار کرنے والے اوسلو معاہدے نے فلسطینیوں کو اپنی ریاست کے قیام کے قریب کہیں بھی نہیں آنے دیا۔
اس وقت بعض عرب ممالک اور خارجی امور کے ماہرین کا یہ ماننا تھا کہ اگر آپ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کرتے ہیں یا دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں تو دونوں صورتوں میں آپ اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں بطور ایک آزاد ملک کے۔ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے اسرائیل کی ریاست کے قیام میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔اس کے علاوہ فرانس نے اسرائیل کے ابتدائی سالوں میں اسے مسلح کیا اور اسے جوہری ہتھیار بنانے میں مدد کی۔ جب 14 مئی 1948 کو فلسطین میں اسرائیل کی ریاست کا اعلان کیا گیا تو امریکہ نے اسے صرف 11 منٹ میں تسلیم کر لیا تھا۔
اگر ہم تاریخ میں تھوڑا اور پیچھے جائیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ1917 میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے بالفور ڈیکلیریشن جاری کیا تھا اور ایک خفیہ خط میں برطانوی سرمایہ دار لارڈ راتس چائلڈ جو کہ حقیقت میں ایک یہودی ہیں اور جنھوں نے اسرائیل کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا تھا سیاسی اور مالی دونوں طور پر ان کو بالفور نے یقین دلایا تھا کہ برطانیہ یہودی عوام کے لیے ایک نئے ملک کو قائم کرنے کے لیے اپنا حتی الامکان کردار ادا کرے گا۔یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا تھا جب پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے وسطی ایشیا میں ترک حکومت کے علاقوں کو اپنے زیر انتظام لے لیا تھا۔ لیکن اس دوران میں بھی جو پاسپورٹ یا روپے جاری کیے جاتے تھے اس پر لفظ ’حکومتِ فلسطین‘ لکھا جاتا تھا۔ یعنی کہ سیاسی طور پر کسی ملک کو نہیں بلکہ ایک علاقے کو فلسطینی ملک تسلیم کیا جاتا تھا۔ جس میں فلسطینی، یہودی اور عیسائی تینوں آباد تھے۔ گو کہ جس میں مسلمان اکثریت میں تھے تو اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو برطانیہ نے فلسطینی علاقے کو کسی ملک کا درجہ دینے کے بجائے اسے اپنی ملکیت سمجھ کر وہاں پر اسرائیل کے قیام کے لیے پوری کوششیں کیں۔ اب کچھ سیاسی اور سفارتی مبصرین کی دلیل ہے کہ آپ نے فلسطینی علاقے میں زبردستی ایک نیا ملک قائم کرکے اسے تسلیم کرنا شروع کردیا اور جو آبادی وہاں موجود تھی اسے بطور نئے ملک تسلیم نہیں کیا گیا یعنی اب جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے تو وہ اپنے ضمیر کی آواز کو تسکین دینے اور تاریخی غلطی کو ٹھیک کرنے کا عمل بھی ہوسکتا ہے۔اس موجودہ عمل کوبہت سے لوگوں نے اس طرح بھی سمجھا ہے کہ ان ممالک نے بڑی مسلم کمیونٹیز کے وجود کی وجہ سے فلسطین کو اس طرح کی نئی پہچان دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں بھی تھوڑی بہت سچائی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے تمام ممالک ان کے مسلم ووٹروں سے مشروط نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ناروے، جہاں بہت سے لوگوں نے غزہ پر اسرائیلی جنگ اور مغربی کنارے میں آبادکاری کی توسیع کو روکنے کے لیے اسرائیل کے خلاف دیگر تعزیری اقدامات کے ساتھ اپنی پہچان کو جوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے اسرائیل کی دفاعی برآمدات کو روک دیا ہے اور انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء Itamar -Ben Gvir اور Bezalel Smotrich کے برطانیہ آنے پر پابندی لگا دی ہے۔ جرمنی اور اسپین نے اسرائیل پر ہتھیاروں کی مکمل پابندی کا اعلان کیا ہے جب کہ ناروے کا خودمختار دولت فنڈ۔ جو کہ دنیا کا سب سے بڑا فنڈ ہے –اس نے غزہ جنگ کے معاملے پر متعدد اسرائیلی کمپنیوں سے اپنی سرمایہ کاری منقطع کرلی ہے۔ اسرائیل کے یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے باعث، یہ دباؤ کے حربے اسرائیلی حکومت کے لیے مذاکرات پر دوبارہ غور کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسرائیل کے قریبی عرب اتحادی متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اسرائیلی حکومت اور دفاعی کمپنیوں پر نومبر میں ہونے والے دبئی ایئر شو میں اسرائیل کی شمولیت پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس سے پہلے سال کے شروع میں پیرس ایئر شو میں بھی یہی عمل دیکھنے میں آیا تھا۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہم ایک نئے دور سے گزر رہے ہیں،جس میں کہ زیادہ تر فلسطینی اور عرب دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں، جس کا واضح مطلب ہے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنا اور 80 سال سے جاری تنازعہ، افراتفری اور نفرت کا خاتمہ۔ یہ ایک اہم ہدف ہے اور اسے آسانی سے حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار اور میڈیا کینسلٹنٹ ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)