مستقبل کی نسلوں کیلئے یوٹی کی لائف لائنز کا تحفظ خطرے میں،تباہ کن صورتحال کا اندیشہ
بلال فرقانی
سرینگر // دریائوں کے عالمی دن پر ماحولیاتی ماہرین نے دریائے جہلم سمیت جموں و کشمیر کے دیگر اہم دریاؤں کی بگڑتی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتی موسمی صورتحال، غیر قانونی تجاوزات، اور انسانی لاپروائی نے نہ صرف دریاؤں کی قدرتی ساخت کو متاثر کیا ہے بلکہ کشمیر کو ایک ممکنہ ماحولیاتی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دریائوں کا عالمی دن محض رسمی تقاریب کا موقع نہیں بلکہ ایک ماحولیاتی الارم ہے، جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ خطے کے اہم دریائوںجہلم، چناب اور راوی تیزی سے سکڑتے جا رہے ہیں۔جموں و کشمیر کے دریاؤں کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمیوں کی غفلت ہے۔ ہمالیائی گلیشیروں کا تیزی سے پگھلنا، بارشوں کے غیر متوقع انداز، اور برف باری میں کمی نے دریاؤں اور چشموں کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے۔ماحولیاتی انجینئر ڈاکٹر عادل مظفر کا کہنا ہے کہ2023-24کا موسمِ سرما کشمیر کی تاریخ کا سب سے خشک موسم رہا، جس کے اثرات 2025 کے آغاز میں نظر آئے جب بیشتر ندیاں اور چشمے خشک ہو چکے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی، زمین کی بے جا کھدائی، اور زیرِ زمین پانی کا حد سے زیادہ استعمال چشموں کے ختم ہونے کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
پانی میں کمی
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ہمالیہ کے گلیشیرز تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ یہ ابتدائی طور پر دریا کے بہا ئومیں اضافے کا سبب بنتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید قلت کا باعث بنتا ہے کیونکہ برفانی ذخائر ختم ہو جاتے ہیں۔ موسم سرما میں برف کی کمی دریائوں اور چشموں کے لیے پانی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔غیر متوقع بارش، بشمول تیز شدت والے بارش کے واقعات، دریا کے بہا ئو کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2023-24 کا موسم کشمیر کی تاریخ میں سب سے خشک تھا، جس کی وجہ سے 2025 کے اوائل میں دریا اور چشمے تقریباً صفر کی سطح پر بہنے لگے۔خطے کے بہت سے قدرتی چشمے، جو دریاں کو پانی فراہم کرتے ہیں، سوکھ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی اور زیر زمین پانی کا کم ہونا ہے۔جنگلات کی کٹائی اور مٹی کے کٹا ئوکی وجہ سے گاد کا بھاری ذخیرہ، خاص طور پر جہلم اور توی کے علاوہ راوی میں دریا کے کنارے کو تنگ کر رہا ہے۔ شہری فضلہ، سیوریج اور صنعتی فضلہ بھی پانی کے ذرائع کو زہر آلود کر دیتے ہیں، جس سے پانی استعمال کے قابل نہیں ہوتا۔دریا کے کنارے سے ریت اور بجری کا غیر قانونی اور ضرورت سے زیادہ نکالنا قدرتی بہا ئومیں خلل ڈالتا ہے۔ اس سے سطحی اور زیر زمین آبی وسائل دونوں کے لیے پانی کے مجموعی بحران میں شدت آتی ہے۔سکڑتے ہوئے دریا اور سوکھتے چشمے خطے کے لیے آبی بحران کا باعث بن رہے ہیں۔پانی کی دستیابی میں کمی سے زراعت اور باغبانی کو خطرہ لاحق ہے، جن کا بہت زیادہ انحصار دریا سے چلنے والی آبپاشی پر ہے۔پانی کے معیار میں کمی اور رہائش گاہ کا نقصان آبی ماحولیاتی نظام اور مقامی انواع کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
جہلم کی حالت تشویشناک
وادی کی شہ رگ سمجھے جانے والے دریائے جہلم کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔جہلم توی فلڈ ریکوری پروجیکٹ نے حال ہی میں دریا کی مکمل سروے کا آغاز کیا ہے، تاکہ ان خطرناک تجاوزات کا اندازہ لگایا جا سکے جنہوں نے سرینگر شہر میں اس کی قدرتی چوڑائی کو محدود کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جہلم کا قدرتی بہاؤ بالائی علاقوں میں برقرار ہے، لیکن ڈی سی آفس سے چھتہ بل تک 7 کلومیٹر کا حصہ صرف 60 میٹر چوڑا رہ گیا ہے، جو ایک بڑا خطرہ ہے۔
انسانی سرگرمیاں خطرے کا باعث
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دریا کے تہہ سے ریت اور بجری کی غیر قانونی کھدائی، فضلہ، صنعتی آلودگی، اور تعمیراتی تجاوزات نے دریاؤں کی قدرتی ساخت کو نقصان پہنچایا ہے۔ڈاکٹر عادل نے خبردار کیا ’’یہ اب سوال نہیں رہا کہ سیلاب آئے گا یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کب آئے گا**؟‘‘۔لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے بار بار سروے اور دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن زمین پر کوئی عملی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے دریاؤں کو بچانے کیلئے فوری، سنجیدہ اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول کے ایک سابق سپر انٹنڈنٹ انجینئر اعجاز احمدنے کہا کہ دریا صرف پانی کا ذریعہ نہیں، بلکہ زرعی معیشت، حیاتیاتی تنوع، سیاحت اور پن بجلی کیلئے بھی ناگزیر ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ اگرتجاوزات نہ ہٹائے گئے، چشمے بحال نہ کیے گئے، اور پانی کے ضیاع کو نہ روکا گیا توماحولیاتی بحران محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن جائے گا۔