عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/وادی کشمیر کے قدیم فنون میں ایک انمول ہنر ویلو کرافٹ بھی جسے عام زبان میں ٹوکری سازی کہا جاتا ہے۔ یہ فن نہ صرف کشمیر کی صدیوں پرانی تہذیبی وراثت کا حصہ ہے بلکہ ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے۔سری نگر سے لے کر بانڈی پورہ، بارہمولہ اور گاندربل تک، اس صنعت سے جڑے کاریگر آج بھی اپنی محنت اور لگن سے ایسی شاہکار چیزیں تیار کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر مقامی اور غیر ملکی خریدار حیران رہ جاتے ہیں۔ویلو کرافٹ کا فن کشمیر میں کئی صدیوں سے رائج ہے۔ مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہنر وسطی ایشیا اور ایران کے راستے وادی میں آیا۔ چونکہ کشمیر کی زمین اور موسم ویلو یعنی بید درختوں کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں، اس لیے یہاں کے کسانوں نے اسے بڑے پیمانے پر اگانا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ مقامی کاریگروں نے اس لکڑی کی لچک اور پائیداری کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹوکریاں، کرسیوں، کرکٹ بیٹس کے کور، اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء بنانی شروع کیں۔
ویلو کرافٹ کی سب سے بڑی خوبی اس کا قدرتی اور ماحول دوست ہونا ہے۔ یہ فن پلاسٹک اور دھات کے مقابلے میں سستا، پائیدار اور خوبصورت متبادل فراہم کرتا ہے۔ اس سے تیار شدہ ٹوکریاں، کور اور دیگر مصنوعات نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ ان میں ایک قدرتی کشش اور کشمیری تہذیب کی خوشبو بھی جھلکتی ہے۔ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویلو لکڑی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آسانی سے شکل اختیار کر لیتی ہے، اس لیے اس سے بنائی گئی چیزیں ہلکی پھلکی ہونے کے باوجود دیرپا ثابت ہوتی ہیں۔اس ہنر کے ایک سینئر کاریگر غلام نبی نے بتایا کہ چند برس قبل تک یہ کاروبار خوش اسلوبی سے چل رہا تھا اور ملکی و غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں ہاتھ کی بنی اشیاء خریدتے تھے۔ تاہم، پہلگام میں حالیہ حملے کے بعد سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی آئی ہے جس نے اس کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہوں نے کہایہ حقیقت ہے کہ مقامی سطح پر لوگ ویلو کرافٹ کی اشیاء کم ہی خریدتے ہیں۔ ہماری اصل کمائی سیاحوں پر منحصر ہے، کیونکہ وہ یہ دستکاریاں بڑی دلچسپی سے خریدتے ہیں۔ لیکن اس سال حملے کے بعد سیاحوں کی تعداد میں جو کمی آئی ہے، اس نے ہمارے گھروں کے چولہے بجھنے کے دہانے پر پہنچا دیے ہیں۔غلام نبی کا کہنا ہےحکومت کی جانب سے اس صنعت کو سہارا دینے کے لیے قرضے اور دیگر اسکیمیں موجود ہیں، لیکن زمینی سطح پر صورتحال مختلف ہےقرضے کی سہولت تو دی جا رہی ہے مگر جب خریدار ہی نہیں آئیں گے تو ہم اس سرمایہ کاری کو واپس کیسے کریں گے، اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سیاحت کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاحتی شعبے کے استحکام کے بغیر ویلو کرافٹ سمیت دیگر دستکاری صنعتیں بھی زوال کا شکار ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ عالمی سطح پر وادی کو ایک محفوظ سیاحتی مقام کے طور پر اجاگر کرے، تاکہ لوگ بلا خوف و خطر یہاں کا رخ کریں۔ سیاح آئیں گے تو ہی ہماری روزی روٹی چلے گی۔پہلگام واقعے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے، اس نے نہ صرف ویلو کرافٹ بلکہ قالین بافی، پیپر ماشی اور دیگر صنعتوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ کاریگر برادری کا ماننا ہے کہ اگر سیاحتی ماحول کو بحال کرنے میں تاخیر ہوئی تو یہ صدیوں پرانا ہنر زوال پذیر ہو سکتا ہے۔
غلام رسول میر نامی ایک کاریگر، جو گزشتہ پچیس برس سے اس فن سے جڑے ہیں، کا کہنا ہےیہ ہنر ہمارے بزرگوں سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ آج بھی لوگ ہمارے ہاتھ کی بنی ٹوکریوں اور کرسیوں کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کام میں محنت زیادہ اور کمائی کم ہے۔ اگر حکومت ہماری مدد کرے اور مارکیٹ کے مواقع بڑھائے تو یہ صنعت پھل پھول سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر اس ہنر کو جدید ڈیزائن اور مارکیٹ سے جوڑا جائے تو یہ عالمی سطح پر بھی مقبول ہو سکتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ویلو کرافٹ کی عالمی سطح پر مانگ ہے، خاص طور پر یورپ اور خلیجی ممالک میں۔ اگر کاریگروں کو جدید ڈیزائن اور برانڈنگ کی تربیت دی جائے، ای کامرس سے جوڑا جائے اور ایکسپورٹ کو فروغ دیا جائے تو یہ صنعت نہ صرف کشمیری معیشت کو مضبوط کر سکتی ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کے لیے روزگار بھی فراہم کر سکتی ہے۔
سری نگر کے تاریخی درگاہ حضرت بل میں خریداری کے لیے آئی ایک سیاح پریتی شرما کا کہنا تھامیں نے یہاں سے ہاتھ کی بنی ٹوکری اور کرسی خریدی ہے۔ یہ نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ ماحول دوست بھی۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے فنون کو عالمی سطح پر مزید پہچان ملنی چاہیے۔ماہرین کے مطابق، اگر اس صنعت کو حکومتی سرپرستی، جدید تربیت، اور عالمی مارکیٹ تک رسائی دی جائے تو یہ آنے والے برسوں میں وادی کی معیشت کا ایک مضبوط ستون بن سکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس سے ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملے گا بلکہ کشمیر کی صدیوں پرانی تہذیبی وراثت بھی زندہ رہے گی۔
کشمیر کا قدیم ہنر ’ویلو کرافٹ‘ آج بھی ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا سہارا
