عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ہفتے کو کہا کہ سوشل میڈیا پر ٹیررسٹ ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) جیسے گروپوں کے پھیلائے گئے بیانیے کو اگر نظر انداز کیا گیا تو یہ ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔سرینگر کے ٹیگور ہال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ایل جی سنہا نےجموں و کشمیر کے عوام پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوں اور امن و استحکام کو محفوظ بنانے کے لیے انتہا پسند پروپیگنڈے کا فعال طور پر مقابلہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ان بیانیوں کا براہ راست اثر ہے اور اگر یہ ٹی آر ایف کے سوشل میڈیا پر پھیلائے جائیں اور ’’ہم خاموش رہیں تو یہ خطرناک ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینی ہوگی‘‘۔
ایل جی سنہا نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف سیکورٹی فورسز کی ذمہ داری نہیں بلکہ شہریوں کی بھی ہے۔انھوں نے کہا ملی ٹینسی کی وجہ سے 40 سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور اس کا خاتمہ صرف فورسز نہیں بلکہ عوام کو بھی آگے بڑھ کر کرنا ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ عوام کو خود بھی اس میں شریک ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہائیوں کی مشکلات کے باوجود جموں و کشمیر میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے، پتھراؤ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور مقامی نوجوانوں کی ملی ٹینٹ تنظیموں میں شمولیت کم ہو رہی ہے۔انھوں جب بھی کسی گھرانے میں تقسیم پیدا ہو، تو ہمیں اپنے گھر کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایل جی سنہا نے کہا کہ اگست 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں، جو جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہاڑی برادری کو شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کا درجہ دینا، فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو مضبوط بنانا اور ’’جن جاتیہ گورو دیوس‘‘کا آغاز کرنا، حکومت کے سماجی اور معاشی انصاف کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’’اب پہاڑی برادری کو برابر کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔ اس برادری کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جو ان کا حق ہے وہ ضرور دیا جائے گا‘‘۔سنہا نے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی اور بائیں بازو کی انتہا پسندی میں نمایاں کمی آئی ہے، خاص طور پر شمال مشرقی خطے میں، اور یقین ظاہر کیا کہ نکسل ازم بھی جلد ختم ہو جائے گا۔
ایل جی سنہا’’جموں و کشمیر نے طویل عرصے تک مصائب برداشت کیے ہیں اور ملی ٹینسی کا خاتمہ ضروری ہے۔ سیکورٹی ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں اور ہمیں بطور شہری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی غلط سرگرمی میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘