بابر حسین
دنیا نے جنگوں میں ایٹم بم، کیمیائی ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے مناظر دیکھے، مگر غزہ میں اب ایک نیا اور خطرناک باب کھل چکا ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر حملوں کے دوران ’’لاونڈر‘‘ اور ’’گاسپیل‘‘ نامی مصنوعی ذہانت (AI) سسٹمز استعمال کئے جو چند سیکنڈز میں ہزاروں فلسطینیوں کو ’’ممکنہ ہدف‘‘ قرار دیتے ہیں اور پھر ان گھروں پر بمباری کر دی جاتی ہے۔ امریکی جریدے +972Mag اور The Guardian کے انکشافات کے مطابق اسرائیلی فوج کی AI مشینیں پورے خاندانوں کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوئیں اور یہ سب انسانی فیصلہ سازی کی بجائے الگورتھم کے تحت ہوا۔غزہ کی وزارت صحت اور اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 20 ستمبر 2025 تک 51,300 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 21,200 بچے اور تقریباً 11,000 خواتین شامل ہیں۔ 12 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور 70 فیصد بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، جس میں اسپتال، اسکول اور پناہ گزین کیمپ شامل ہیں (UN OCHA & Gaza Health Ministry, Sept 2025)۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اگست 2025 میں اپنی مشترکہ رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل نے AI کو “Targeting Process” میں اس طرح استعمال کیا کہ انسانی اقدار اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔ الگورتھم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے درجنوں بار اسکول، اسپتال اور پناہ گزین کیمپ تباہ ہوئے اور درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے۔
اسرائیلی افسران کے بیان کے مطابق، AI سسٹمز پورے شہر کے نقشے اور شہری ڈیٹا کے تجزیے کے بعد ممکنہ اہداف مرتب کرتے ہیں اور بمباری کا فیصلہ انسانی فیصلہ ساز کی بجائے الگورتھم کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ +972Mag کی رپورٹ کے مطابق اس کے نتیجے میں معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اور عالمی قوانین کے مطابق “Collective Punishment” کے زمرے میں آنے والے واقعات میں اضافہ ہوا۔مغرب کی منافقت اس معاملے میں واضح ہو رہی ہے۔ یوکرین میں روسی حملوں کے دوران ایک ایک شہری ہلاکت پر مغربی حکومتیں اور میڈیا ہڑبونگ کرتے ہیں، مگر غزہ میں ہزاروں بچوں، خواتین اور مردوں کی ہلاکت پر صرف ’’تشویش‘‘ کا بیان جاری ہوتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے نومبر 2023 سے اپریل 2025 تک سلامتی کونسل میں متعدد بار جنگ بندی کی قراردادیں ویٹو کیں اور اسرائیل کو اربوں ڈالر کی مالی و عسکری امداد فراہم کی۔ سوال یہ ہے کہ انسانی جان کی حرمت مذہب اور جغرافیہ کے لحاظ سے طے کیوں کی جاتی ہے؟ اگر یوکرین کے بچے ’’انسانی المیہ‘‘ہیں تو غزہ کے بچے کیوں صرف “Collateral Damage” کہلائیں؟اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر نے جولائی 2025 میں واضح کیا کہ غزہ میں ہونے والی بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں (UN OHCHR, July 2025)۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور عالمی انسانی حقوق ادارے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث رہتا ہے۔یہ لمحہ عالمِ اسلام اور عالمی برادری کے لیے سنجیدہ سوال ہے کہ کیا ہم صرف بیانات تک محدود رہیں گے یا انسانی جان کی حفاظت کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے؟ ٹیکنالوجی کا استعمال اگر اخلاقیات اور قوانین کے بغیر ہو تو یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر آج دنیا اسرائیل کے AI پر خاموشی اختیار کرتی ہے تو کل یہی ماڈل کسی اور خطے میں بھیانک تباہی مچائے گا۔ مغرب کے دوہرے معیار نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی حقوق اصول نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار ہیں۔انسانیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کے AI کے استعمال کو روکے اور جنگی ٹیکنالوجی کے عالمی ضابطے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ مستقبل میں یہ خودکار نظام انسانی جان کے لیے خطرہ نہ بنے۔