راجہ یوسف
اردو دنیابڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔اب یہ وسیع بھی ہو رہی ہے اور مغربی دیسوں تک پہنچ بھی گئی ہے۔ کہاں کبھی یہ زبان برصغیر تک محدود مانی جاتی تھی اور اب یہ پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہے ، لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔چاہے نظم ہویا نثرہو، اردو کی دو بڑی اصناف بن چکی ہیں اور ان کے لکھنے والوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ میں یہاں دنیائے ادب کی تعریف میں نہیں لکھنے جا رہا ہوں بلکہ اپنے یارِ جانی اور کشمیر کے بہت ہی اچھے افسانہ نگار طارق شبنم کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں اس لئے یہاں صرف ان کی اور ان کے فکشن کے بارے میں ہی بات ہوگی۔
اردو ادب میں خاص کر فکشن کی دنیا میں بہت سارے ایسے قلم کار ہیں جو صرف نام کمانے(نام پھر بھی بن جاتا ہے) کے لیے نہیں لکھتے ہیں بلکہ صفحہ قرطاس پر اپنے دل کی دھڑکن، اپنے سماج کی بے سمتی اور اپنی روح کی کسک کو اتار دیتے ہیں۔ طارق شبنم بھی انہی تخلیق کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کہانی لکھتے نہیں ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے کرب سے درد کشید کرتے ہیں ۔ پھردرد کو شوق رنگوں میں رنگ کر صاف آئینے کی طرح اپنے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں جن میں قاری اپنا اور اپنے اردگرد کا عکس دیکھتا ہے۔ کشمیر کے نامور فکشن نگار نور شاہ طارق شبنم کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ’’طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے موضوعات سماج کے درماندہ اور پسماندہ لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے اور انسانی نفرتوں کی عکاسی بھی نظر آتی ہے اور اکثر افسانوں کے کردار کشمیر کی کھردری زمینی سطح سے ابھرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کی دنیا میں جھانک رہے ہوں، باہر بکھری ہوئی کہانیوں کو اپنی نظروں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہوں، حالات و واقعات کا جائزہ لے رہے ہوں، پھر وہ کھڑکی بند کرکے قلم کاغذ لے کراپنے موضوعات میں رنگ بھرنے لگ جاتے ہیں۔ ‘‘
طارق شبنم اپنی زمین سے جڑے ہوئے قلم کار ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کا مشاہدہ بڑی باریک بینی سے کرتے ہیں اور یہیں سے اپنی کہانیوں کے موضوعات چن لیتے ہیں۔کہیں بیٹی کی بے بسی ہے تو کہیں ماں کا نہ ختم ہونے والا انتظار۔ کہیں سماجی نا برابری ہے تو کہیں محرومیوں کے اندھیرے۔ ان کے افسانوں کے کردار بناوٹی نہیں لگتے ہیں ۔ وہ درد و کرب کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دکھ ہے۔ کردار کی نفسیات ابھارنے میں طارق شبنم ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طارق شبنم کے کردار کبھی درد میں روتے ہیں، کبھی آہ و فغاں بھرتے ہیں اور کبھی خاموش رہ کر بھی اپنے قاری کا دل دہلا دیتے ہیں۔ معروف نقادڈاکٹر ریاض توحیدی طارق شبنم کے بارے میںلکھتے ہیں: ـ’’ اگر کوئی قلم کار مطالعہ جاری رکھتے ہوئے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے تو تجربے کی بنیاد پر اس کی تحریر یا تخلیق میں بھی پختگی آتی رہتی ہے۔ افسانے کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اس میں فنی چابک دستی کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجود ہونا چاہئے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو طارق شبنم کے کئی افسانوں میں فنی لوزمات کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور ان میں کہانی پن کا غلبہ اس حد تک ضرور نظر آتا ہے کہ گرد و پیش کے مسائل و واقعات کو مشاہداتی بنیاد پر کہانی کے روپ میں پیش کرنے کی احسن کوشش کی گئی ہے۔‘‘ طارق شبنم کے قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے دل میں کرداروں کے تئیں ہمدردی بڑھتی ہے اور ایک عجیب سا احساس جاگتا ہے۔ جیسے کوئی پرانا زخم پھر سے ہرا ہو گیا ہو۔ وہ درد و کرب میں بھی اس طرح کی منظر کشی کرتے ہیں کہ اس کے قاری کے اندر دیر تک ہلچل سی مچ جاتی ہے اور الفاظ کی گونج اسے اپنے اندر بھی گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ایک قا ری کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ افسانہ پڑھ رہا ہے یاکہ حقیقت میں یہ واقع دیکھ رہا ہے، وہ اپنے قاری کو اپنے کرداروں کے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ ڈاکٹر شمع افروز زیدی ایڈیٹر بیسویں صدی نئی دہلی طارق شبنم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :’’ طارق شبنم اور اس کا افسانہ ’’ ٹھنڈا جہنم‘‘ ۔ ( تازہ ڈاک سے کشمیر کے افسانہ نگار طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ ’’بے سمت قافلے) ملا۔ طارق شبنم فکشن کا جانا پہچانا ہی نہیں بلکہ معروف نام ہے۔ ان کی کہانیاں اکثر کسی نہ کسی جریدے یا فورم پر میری نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ اتفاق دیکھئے مجموعے کی پہلی کہانی ’’ٹھنڈا جہنم‘‘ چند برس قبل بیسویں صدی میں شائع ہو چکی ہے۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ کہانی بیسویں صدی کے لئے ملی تھی، ایک بار پڑھ کے میں نے دوبارہ پڑھی یہاں تک کہ خود کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئی یعنی ایسا افسانہ جس میں رومان کا دور دور تک بھی گزر نہ تھا لیکن کچھ تو ایسا تھا جسے بطور قاری میرے ذہن و دل نے قبول کر لیااور بیسویں صدی کے خاص نمبر میں شامل کیا۔ ‘‘
طارق شبنم جو کہانیاں لکھتے ہیں ان کے موضوعات محض کشمیرتک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ دنیا بھر کے حالات واقعات سے باخبر ہیں ۔ مگر وہ زیادہ تر ان موضوعات کو ترجحی دیتے ہیں جو ان کے اردگرد کے ماحول میں پنپتے ہیں اور کشمیر سے زیادہ قریب ہیں۔ ان کی کہانیوں میں وادی کی ہواؤں کی خنکی، یہاں کی زمینی کسک اور یہاں کے لوگوں کی بے بسی رچی بسی ہے۔طارق شبنم نے کشمیر کو اپنی تحاریر کا ماخذ بنا ڈالا ہے، ان کے ہاں ہمیں وہ موضوعات زیادہ ملتے ہیں جو کشمیر اور کشمیر میں ہورہے حالات و واقعات پر منحصر ہوتے ہیں۔ معروف ادیب جمال عباس فہمی طارق شبنم کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ کشمیر میں علم و ادب کی قلمی خدمت کرنے والوں کا ایک بڑا کارواں ہے۔ اردو ادیبوں کا یہ کارواں جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کارواں میں شامل اہل قلم مختلف اصناف میں قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اردو ادب کی کوئی ایسی صنف نہیں ہے جس میں کشمیر کے اردو قلم کار ادبی سرمائیہ میں اضافہ نا کر رہے ہوں۔ طارق شبنم بھی ایک ایسے ہی قلم کار ہیں جو افسانہ نگار اور مضمون نگار کی حثیت سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں اور اپنی جنبش قلم کے ذریعے افسانوی ادب کے سرمایہ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔‘‘
طارق شبنم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گمشدہ دولت‘‘ 2020ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ 28 کہانیوں پر مشتمل ہے ۔ یہاں پڑھنے والے کو طارق شبنم کے وہ افسانے ملتے ہیں جو انسانی رشتوں کی بے بسی، خوابوں کے ٹوٹتے اور بکھرتے کرب اور حسین لمحوں کی دلکش داستانیں سناتے ہیں۔ 2021ء میں ’’ منتخب افسانے‘‘ مرتب طارق شبنم ،راجہ یوسف ’’ولر اردو ادبی فورم ‘‘ فیس بک گروپ میں شامل افسانوں کو کتابی شکل شائع کر دیا ہے۔ 2024ء میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’بے سمت قافلے‘‘ منظر عام پر آیا جس میں 44 افسانے شامل ہیں۔ یہ تینوں کتابیں قارئیں نے بہت پسند کیں اور بڑے بڑے ناقدین اور اسکالرس نے ان کتابوں پر بہت سارے مضامین اور تنقدی تبصرے اور تجزیے لکھ دیئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گلبرگہ یونیورسٹی کلبرگی میں درس تدریس سے وابستہ ڈاکٹر فریدہ تبسم جو ایک معروف نقاد بھی ہیں ’’ بے سمت قافلے ‘‘ کے تنقیدی جائزہ میں لکھتی ہیں کہ’’ جہاں تک طارق شبنم کے افسانوں کی بات ہے، ان کے یہاں موضوعات اطراف و اکناف سے اخذ کئے گئے ہیں۔ زیادہ تر موضوعات میں اصلاح معاشرہ اور امن و امان اور خوشحال زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے اکثر افسانے معنویاتی سطح پر کرب انگیز فکر میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔‘‘
طارق شبنم کے افسانوں میں علامتی ابہام بہت کم نظر آتا ہے جبکہ حقیقت نگاری عیاں ہے ۔ ان کے اسلوب میں روانی اور بیانیے میں چاشنی ہے ۔ وہ کردار وں کو اپنی زبان میں بولنے کا موقعہ دیتے ہیں ۔ ان کے منہ میں مصنف کی زبان نہیں رکھتے بلکہ ان کے افسانوں کے کردار اپنی بولی بولتے ہیں۔ اسی لیے ان کی کہانی پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کوئی افسانہ نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ اپنے ہی محلے یا گاؤں کا کوئی سچا واقعہ سن رہے ہوں۔
طارق شبنم کی تخلیقات برصغیر ہند پاک کے علاوہ اردو دنیا کے کئی ممالک میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان کی شخصیت فن اور ادب پر آئے دن مضامین لکھے جاتے ہیں جو ملک کے معتبر رسائل جراید اور اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔وہ کئی ادبی انجمنوں اور تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔ کشمیر کے مشہور و معروف (فیس بک) ادبی گروپ ’’ولر اردو ادبی فورم‘‘ کے روح رواں اور صدر ہیں۔ یہ گروپ دنیا بھر کے افسانہ نگاروں کو ایک تنقیدی اور تاثراتی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جہاں افسانے شئیر کئے جاتے ہیں جن پر معتبر تنقید نگار، تجزیہ اور تبصرہ نگار ان افسانوں پر اپنی را ئے دیتے ہیں اور نوآموز قلم کاروں خاص کر فکشن لکھنے والے نوجوانوں کو اچھے اچھے اور نیک مشورے دیئے جاتے ہیں۔ اس فورم کے کئی ’’افسانہ ایونٹس‘‘ کو کتابی شکل میں بھی شائع کر دیا گیا ہے۔ طارق شبنم کو بڑی ادبی انجمنوں کی طرف سے ان کے کام کے لئے بہت بار سراہا گیا ہے اور وقتاًفوقتاًان کو اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔2023 میں ان کی ادبی خدمات کو مدنظر رکھ کر ’’نگینہ انٹرنیشنل ‘‘ کشمیر کی طرف سے انہیں نگینہ انٹرنشنل ادبی ایوار ڈ باپت افسانہ نگاری دیا گیا ۔ اسی سال یعنی 2023 میں ہی طارق شبنم کو ’’شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائیٹی ‘‘ جموں و کشمیر کی طرف سے ڈاکٹر برج پریمی ایوارڈ سے نواز گیا ہے۔ اور 2024 میں ان کو جوگندر پال قومی ایوارڈ باپت فکشن 2024 دیا گیا ہے۔
رابطہ ( اننت ناگ کشمیر) ۔ 9419734234