فکرو فہم
ظفر احمد بٹ
کشمیر، جسے کبھی سادگی، ایمان اور روحانیت کی جیتی جاگتی تصویر کہا جاتا تھا، آج اپنی اصل پہچان سے محروم ہو رہا ہے۔ یہاں کی شادیاں جو کبھی دینِ محمدؐ کی سنت اور آسانی کی علامت تھیں، آج دکھاوا، بدعت اور فضول خرچی کا کھیل بن چکی ہیں۔ نکاح، جو سکون اور رحمت کا ذریعہ تھا، اب بوجھ اور امتحان بن گیا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہر فرد کا ضمیر بیدار ہونا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کیا یہ واقعی دینِ محمدؐ ہے یا ہم نے اپنے معاشرے کو اپنی ہی ہاتھوں تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے؟
اسلام نے نکاح کو ایک سہولت بنایا، ایک عبادت بنایا۔ قرآن نے اسے سکون کا ذریعہ کہا، اور رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ نکاح آدھا ایمان ہے۔ مگر آج کشمیر میں نکاح اپنی اصل روح سے خالی ہے۔ یہ چند لمحوں میں مکمل ہونے والا مقدس عمل اب دنوں پر محیط تماشہ بن گیا ہے۔
پرانے دور کی شادیوں کو یاد کیجیے۔ مسجد یا گھر کے کسی کونے میں چند گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوتا، مہر طے ہوتا، اور سب خوشی بانٹتے۔ ولیمہ میں روایتی کھانے، سادگی اور دل کی وسعت ہوتی۔ دلہن سادگی میں بھی دل کی ملکہ لگتی، اور دلہا سادہ لباس میں بھی وقار کی تصویر ہوتا۔ شادی کا مقصد خوشی اور رشتہ داری کو جوڑنا تھا، نمائش یا برتری نہیں۔
اور اب نئی شادیوں کو دیکھ لیجیے۔ بڑے بڑے شادی ہالوں اور ہوٹلوں میں لاکھوں روپے لٹائے جاتے ہیں۔ فوٹو شوٹ، مہنگے لباس، زیورات کی نمائش، اور دنوں پر محیط غیر دینی رسومات۔ نکاح عبادت نہیں رہا بلکہ ایک نمائش گاہ بن گیا ہے۔ کھانوں کے ڈھیر، مہمانوں کی بھیڑ، اور تنقیدی نگاہیں،یہ سب اصل خوشی کو نگل جاتے ہیں۔
جہیز کا ذکر کیے بغیر یہ بحث ادھوری ہے۔ یہ لعنت آج ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ساری عمر کی کمائی قربان کرتے ہیں۔ غریب والد اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کے قابل نہیں رہتے، اور بیٹیاں گھروں میں بیٹھے بیٹھے جوانی کھو دیتی ہیں۔ بھائی اپنی بہنوں کی شادی کے لیے ساری زندگی قرض اور محنت میں گزار دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس نکاح کے نام پر ہو رہا ہے جسے اسلام نے سادہ اور آسان بنایا تھا۔
دکھاوا اور نمائش نے ہماری شادیوں کی روح چھین لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سبقت لینے کے جنون میں لاکھوں لٹاتے ہیں۔ شادی کا مقصد عبادت اور محبت بانٹنا نہیں بلکہ برتری ثابت کرنا بن چکا ہے۔ یہ نمائش کئی گھروں کو قرض میں ڈبو چکی ہے، کئی رشتوں کو زہر بنا چکی ہے۔
شادیوں میں غیر دینی رسومات نے بھی دین کی روح کو مجروح کیا ہے۔ مہندی رات، ڈانس پارٹیاں، موسیقی، اور بے شمار فضول رسومات نکاح جیسے مقدس عمل کو کھیل بنا چکی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی دین بیزاری اور دوسروں کی تقلید کا نتیجہ ہے۔
فضول خرچیاں ہمارے معاشرے کے زوال کی اصل جڑ ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ غربت اور محرومی عام ہو رہی ہے۔ کئی گھر قرض کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔ اللہ نے فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہا تھا، مگر ہم نے اسے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیا ہے۔
اے کشمیری نوجوانو! یہ لمحہ تمہارے لیے سوچنے کا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری بہنیں اور بیٹیاں جہیز کے بوجھ تلے عمر گزاریں؟ کیا تم چاہتے ہو کہ فضول رسومات تمہارے نکاح کو بوجھ بنائیں؟ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے گھروں سے سنتِ محمدؐ کی برکت ختم ہو جائے؟ اگر نہیں، تو پھر کھڑے ہو جاؤ اور اعلان کرو کہ ہم بدعت، جہیز اور فضول خرچ کو رد کرتے ہیں اور نکاح کو سنت کے مطابق زندہ کریں گے۔
یہ مضمون کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کے ضمیر کی آواز ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے رویے نہ بدلے تو آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آؤ، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی شادیوں کو آسان، پاکیزہ اور سنت کے مطابق بنائیں گے۔ ہم بدعت کو دفن کریں گے، دکھاوا ختم کریں گے، اور نکاح کو عبادت اور برکت کا ذریعہ بنائیں گے۔یہی دینِ محمدؐ ہے، یہی نجات کا راستہ ہے، یہی کشمیر کی بقا ہے۔