فکر انگیز
طارق حمید شاہ ندوی
اسلام نے نکاح کو ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ قرار دیا ہے جسے قرآن مجید نے ’’ميثاقاً غليظاً‘‘ کہا ہے ۔(النساء:21) یہ محض قانونی معاہدہ نہیں بلکہ دو روحوں اور دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے، جس کی بنیاد محبت، سکون اور رحمت پر رکھی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے،’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘ (الروم: 21)
اسلام نے نکاح کے انعقاد کو نہایت سادہ اور آسان رکھا۔ صرف یہ شرط ہے کہ دلہا اور دلہن اپنی زبان سے ایجاب و قبول کریں اور دو مسلمان گواہ موجود ہوں، بس نکاح مکمل ہو جاتا ہے۔ یہی شریعت کا حسن اور فطرت سے ہم آہنگی ہے۔فقہائے اسلام متفق ہیں کہ نکاح کی بنیاد ایجاب و قبول پر ہے۔ اگرچہ وکالتاً نکاح بھی جائز ہے، لیکن اصل اور افضل یہی ہے کہ دلہا اور دلہن بنفسِ نفیس مجلس میں موجود ہوں اور براہِ راست ایجاب و قبول کریں۔ امام سرخسی فرماتے ہیں،’’عقود میں اصل یہ ہے کہ فریقین خود براہِ راست عقد کریں، وکالت تو محض ضرورت کی رخصت ہے۔‘‘ مالکیہ نے بھی یہی اصول بیان کیا ہے کہ نکاح میں اصل مباشرت (خود انجام دینا) ہے، وکالت صرف حاجت کے وقت ہے۔
جب لڑکا اور لڑکی براہِ راست مجمع کے سامنے ایجاب و قبول کرتے ہیں تو اس لمحے کے ساتھ ان کے جذبات اور احساسات گہرے طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔ یہ زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہوتا ہے جو وہ اپنی زبان سے سب کے سامنے کرتے ہیں۔ اس وقت جو کیفیت دل میں اترتی ہے وہ ساری عمر قائم رہتی ہے۔ یہی کیفیت بعد کے ازدواجی رشتے میں محبت، اعتماد اور خلوص کا سرچشمہ بنتی ہے۔ براہِ راست ایجاب و قبول سے زوجین کو یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم عہد خود باندھا ہے۔ یہ اعتماد ان کے تعلقات کو مزید مضبوط اور پائیدار بناتا ہے۔
اصالتاً نکاح کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جب نکاح براہِ راست ہوتا ہے تو خاندان اور معاشرہ سب گواہ بنتے ہیں کہ دلہا اور دلہن نے اپنی مرضی سے نکاح کیا۔ اس سے بعد کے شکوک و شبہات یا نزاعات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ یہ شفافیت معاشرتی اعتماد کو بڑھاتی ہے۔دوسرے مذاہب میں نکاح مخصوص پیشواؤں کے بغیر ممکن نہیں، لیکن اسلام نے نکاح کو پیشوائیت سے آزاد کیا۔ شریعت نے اسے عوام کے لیے آسان ترین عمل بنایا۔ نکاح کے لیے مولوی یا قاضی کی موجودگی شرط نہیں بلکہ سہولت ہے۔ اصل اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ دلہا اور دلہن خود اپنے نکاح کا اعلان کریں اور گواہ اس کے شاہد ہوں۔
الغرض اسلامی شریعت میں نکاح کی اصل اور پسندیدہ صورت یہی ہے کہ دلہا اور دلہن بنفسِ نفیس مجلس میں موجود ہوں اور براہِ راست ایجاب و قبول کریں۔ وکالتاً نکاح درست ہے لیکن یہ صرف ایک رخصت ہے۔ نکاح کی حقیقی روح، اس کے جذباتی اثرات، نفسیاتی سکون اور معاشرتی برکتیں براہِ راست (اصالتاً) نکاح ہی میں پنہاں ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ،’’وکالت نکاح کو جائز بناتی ہے، لیکن اصالت نکاح کو زندگی بھر کی محبت اور اعتماد عطا کرتا ہے۔‘‘