جنگلاتی کٹائو اور گلیشیئروں کے پگھلنے سے صحت،زراعت اور روزگار متاثر
بلال فرقانی
سرینگر// عالمی یومِ ماحولیاتی صحت کے موقع پر اعداد و شمار اور ماہرین کی رپورٹوںسے انکشاف ہوا ہے کہ جموں و کشمیر ماحولیاتی صحت کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ہوا اور پانی کی آلودگی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، موسمیاتی تبدیلی، اور گلیشیئروں کا پگھلنا نہ صرف خطے کے نازک ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلکہ انسانی صحت، زراعت، آبی وسائل اور روزگار کے ذرائع کو بھی براہِ راست متاثر کر رہے ہیں۔صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے سابق ڈائریکٹر پرویز کول کے مطابق جموں و کشمیر میں ہر سال تقریباً 10 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث وقت سے پہلے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سرینگر اور جموں میں اگرچہ پچھلے پانچ برسوں میں پی ایم10 ذرات کی سطح میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، لیکن دونوں شہر اب بھی قومی محفوظ حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ سردیوں میں کوئلہ، لکڑی اور مٹی کے تیل کے جلانے سے ہوا میں آلودگی مزید بڑھ جاتی ہے، جس سے دمہ، برونکائٹس اور سانس کی دیگر بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔دوسری جانب، ترقیاتی منصوبوں، سڑکوں، ٹنلوں اور سیاحتی تعمیرات کے نام پر بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔دسمبر 2024 میں جاری فارسٹ سروے آف اندیا کی رپورٹ کے مطابق 2021 سے 2023 کے درمیان جموں کشمیر میں 40 مربع کلومیٹر سے زائد جنگلاتی رقبہ ختم ہو چکا ہے۔انڈیا اسٹیٹ آف فارسٹ رپورٹ 2023 کے مطابق 2023 میں جموں و کشمیر میں جنگلات کا کل رقبہ 21,346.39 مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا، جو کہ سال 2021 کی رپورٹ میں درج 21,387 مربع کلومیٹر سے 40.61 مربع کلومیٹر کم ہے۔جنگلاتی رقبے کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انتہائی گھنے جنگلات کا رقبہ 4,208.79 مربع کلومیٹر ہے، درمیانے گھنے جنگلات 8,006.56 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں، جبکہ کھلے جنگلات کا رقبہ 9,131.04 مربع کلومیٹر ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مجموعی جنگلاتی رقبہ اب بھی وسیع ہے، لیکن مسلسل کمی ایک تشویشناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ پچھلے چار برسوں میں 5,200 سے زائد جنگلاتی آگ کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 3,500 ہیکٹر سے زیادہ جنگلات جل کر راکھ ہو گئے۔آبی ماحولیاتی نظام بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ جھیلوں، دریاوں اور نالوں کے کنارے تجاوزات ہٹانے کے دوران گزشتہ پانچ برسوں میں 5.84 لاکھ درخت کاٹے گئے، جو ماحولیاتی توازن میں گراوٹ، مٹی کی خرابی، اور سیلاب کے خطرات کو بڑھا رہے ہیں۔ گلیشیروںکے تیزی سے پگھلنے، آبی ذخائر کے سکڑنے اور غیر متوقع بارشوں سے زراعت، پینے کے پانی اور آبی حیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ اب صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک صحت عامہ، اقتصادی استحکام اور سماجی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ فضائی و آبی آلودگی کے باعث نہ صرف سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں بلکہ جلدی امراض، آنکھوں کی سوزش اور آنتوں کے انفیکشن جیسے مسائل بھی عام ہو چکے ہیں۔ غریب اور دیہی آبادی اس ماحولیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔مرکزی حکومت نے قومی منصوبہ برائے صاف ہوا کے تحت جموں و کشمیر کو مالیاتی سال2024-25تک151.97 کروڑ روپے کی امداد فراہم کی ہے، جس کا مقصد فضائی آلودگی پر قابو پانا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف بجٹ کافی نہیں، بلکہ قانون پر سختی سے عملدرآمد، صاف توانائی کی ترویج، غیر قانونی تعمیرات پر روک، جنگلات کا تحفظ، اور ماحولیاتی شعور بیدار کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔