میر شوکت پونچھی
رات کا اندھیرا جیسے کوئی پرانا انتخابی منشور، آسمان پر پھیلا ہوا تھا۔ چاند اپنی سفید روشنی میں کسی بزرگ ووٹر کی مانند زمین پر جھانک رہا تھا، جو برسوں سے جلسوں کی گڑگڑاہٹ اور وعدوں کی چمک دیکھتے دیکھتے تھک چکا ہو۔ شہر کی خاموش گلیوں میں کہیں کہیں وہ پوسٹر جھلملاتے تھے جن پر انتخابی نعرے لکھے تھے، مگر بارش اور دھوپ نے انہیں ایسے بگاڑ دیا تھا کہ جیسے کسی پرانے لیڈر کی تقریر وقت کے شور میں بکھر گئی ہو۔ایک میدان کے کونے میں بوسیدہ کرسی پر رکھا مائیک، جو شاید کبھی کسی بڑی ریلی کا ہیرو رہا ہوگا، اب زنگ آلود تھا۔ اس کے آگے ایک پرانا قالین بچھا تھا، جس پر بیٹھے تھے ایک بزرگ سیاست دان۔ وہ تین بار وزارت سے محروم کیے جا چکے تھے اور ہر بار کسی نئے رنگ و روپ میں واپس آئے، جیسے پرانا گانا ہر دور میں نئے ری مکس کے ساتھ ہٹ ہو جائے۔ ان کی مونچھیں کسی جادوگر کی چھڑی کی طرح تھیں، جنہیں وہ مروڑتے اور پھر اپنی سفید رومال سے پسینہ صاف کرتے۔ مجمع چھوٹا تھا مگر سننے والے تجسس سے بھرے تھے۔ بزرگ نے اپنی گرج دار آواز میں اعلان کیا:’’بیٹا! سیاست کی تسبیح کے تین دانے ہیں—اُچے، لُچے اور سُچے۔ اگر یہ تینوں ایک جگہ مل جائیں، تو سمجھو اقتدار کی گدی بھی مل گئی، نصاب میں نام بھی چھپ گیا، میڈیا پر تعریف بھی چھا گئی اور سوشل میڈیا پر میمز بھی بن گئے‘‘۔لوگوں میں سرگوشیاں ہوئیں۔ کوئی تالیاں بجانے لگا، کوئی موبائل پر لائیو اسٹریم شروع کرنے لگا، اور کچھ نے پاس کھڑے چپراسی سے پوچھا: ’’یہ اُچے لُچے سُچے آخر ہیں کیا؟‘‘۔چپراسی جو برسوں سے سیاست کے حاشیے پر بیٹھا تھا، مسکرا کر بولا’’یہی تو اصلی چمکدار دانے ہیں۔ سیاست کی ساری گیم انہی کے گرد گھومتی ہے۔ اُچے دولت والے، لُچے شور مچانے والے، اور سُچے بے چارے سچ بولنے والے‘‘۔
اُچے وہ ہیں جن کے گھروں کی دیواریں نوٹوں سے پلستر کی گئی ہیں۔ ان کے کتوں کے کالر پر ہیروں کی چمک ہوتی ہے، اور ان کے بچوں کی اسکول فیس سے پورے شہر کے اسکول کئی سال مفت چل سکتے ہیں۔ یہ سیاست کے دیسی گھی ہیں—خوشبو بھی انہی سے، ذائقہ بھی انہی سے، اور ہاضمے کی خرابی بھی انہی سے۔انتخابی مہم کے وقت یہ ہیلی کاپٹروں سے گلاب کی پتیاں برساتے ہیں، ووٹر کو پرفیوم کی خوشبو میں ’’تبدیلی‘‘ کا وعدہ سونگھاتے ہیں، اور ووٹ جیتنے کے بعد وہی ووٹر ان کے دفتر کے باہر قطار میں کھڑا رہتا ہے۔ رولز رائس میں بیٹھا اُچا کھڑکی سے جھانک کر کہتا ہے’’صبر کرو، ترقی آ رہی ہے، بس تھوڑا سا تیل اور چاہیے‘‘۔اُن کا نظریہ ان کے بٹوے میں چھپا رہتا ہے، جیسے پرانے نوٹ جو کبھی کبھار الماری سے نکل آئیں۔ وہ پارٹیاں خریدتے ہیں جیسے بچہ ٹافی خریدے، ٹکٹ بیچتے ہیں جیسے ریلوے کا کاؤنٹر، اور میڈیا پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’’ہم تو عوام کے خادم ہیں۔‘‘ مگر ان کے باورچی خانے کی ہڈیاں غریب کے پیٹ سے توڑی گئی تنخواہوں سے جمی ہوتی ہیں۔اگر صحافی سوال کرے’’یہ پیسہ کہاں سے آیا؟‘‘ تو اُچا مسکرا کر جواب دیتا ہے ’’یہ تو اللہ کی رحمت ہے!‘‘ اور اگر صحافی زیادہ اصرار کرے تو اگلے دن اس کا چینل بند ہو جاتا ہے، اور اس کی جگہ کوئی پرانا ڈرامہ نشر ہونے لگتا ہے۔ یہ اُچے وہ شاپنگ مال ہیں جو باہر سے جگمگاتے ہیں مگر اندر سے خالی۔
پھر آتے ہیں لُچے۔ یہ سیاست کے غازی ہیں جو جلسوں میں ہنگامہ کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر گالیوں کی بارش کرتے ہیں، اور موقع ملے تو مخالف کا جوتا بھی اپنے پاؤں میں پہن لیتے ہیں۔ ان کی زبان آگ اگلتی ہے، دل میں زہر بھرا ہوتا ہے اور ہاتھ پتھروں سے بھرے رہتے ہیں۔ایک دن یہ چیختے ہیں: “چوروں کو جوتے مارو!” اور اگلے دن وہی جوتا پہن کر اپنے لیڈر کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہیں۔ یہ رات کے اندھیرے میں مخالف کے بینر پر اپنا لیڈر چپکا دیتے ہیں اور صبح کہتے ہیں ’’یہ عوام کی آواز ہے!‘‘۔ان کا دماغ اکثر خالی ہوتا ہے مگر زبان کی تیزی ایسی کہ موم بتی کی ریلی سے لے کر موٹر وے کے ٹھیکے تک سب کچھ بیچ ڈالیں۔ ان کے اخلاق کو اگر ترازو میں رکھا جائے تو وہ کبھی ایک کلو بھی نہ نکلے۔ مگر جوش ایسا کہ لگتا ہے یہ انقلاب برپا کر دیں گے، حالانکہ حقیقت میں یہ اگلے جلسے کے لیے نیا نعرہ گھڑنے میں مصروف ہوتے ہیں۔لُچوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک دن
جمہوریت کے سپاہی ہوتے ہیں اور اگلے دن آمریت کے عاشق۔ یہ ووٹوں کی بوریاں ایسے سنبھالتے ہیں جیسے مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے، مگر صبح تک سارے انڈے کسی اور کے آملیٹ میں جا چکے ہوتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے ’’یہ غنڈہ گردی کیوں؟‘‘۔ تو لُچا فخر سے کہتا ہے’’یہ ہماری سیاسی وفاداری ہے!‘‘ اور پھر اپنے لیڈر کی تصویر کے نیچے لکھ دیتا ہے ’’ہمارا فخر، ہمارا رہنما!‘‘۔
اب باری ہے سُچوں کی، جو اس تسبیح کے سب سے نایاب دانے ہیں۔ ان کا لباس سادہ، چہرہ تھکا ہوا مگر آنکھوں میں روشنی۔ یہ پارٹی کی میٹنگ میں پچھلی کرسی پر بیٹھتے ہیں، ان کے خیالات کی گونج کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے۔ میڈیا ان کی باتیں شائع نہیں کرتا، سوشل میڈیا پر ان کے پیغامات صرف وہی شیئر کرتے ہیں جن کے دل ابھی مردہ نہیں ہوئے۔یہ وہ ہیں جو سچ بولتے ہیں۔ اسی لیے پارٹی انہیں غیرضروری سمجھتی ہے۔ ان کی فائلیں ہمیشہ “نوٹس میں لے لیا گیا” کے ڈبے میں دب جاتی ہیں۔ کامیابی کے دن یہ پس منظر میں غائب کر دیے جاتے ہیں، جیسے فلم کا ہیرو اچانک سکرین سے ہٹ جائے۔مگر جب اُچے ایجنسیوں کے دفتر میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں، اور لُچے میڈیا کے کیمروں سے چھپ رہے ہوتے ہیں، تب یہی سُچے گاؤں کے کسی ووٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں’’بھائی، ہم نے کوشش کی تھی، مگر انجام وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے‘‘۔ان کے الفاظ ضمیر کی گواہی ہوتے ہیں، جو شور میں دب جاتی ہے مگر بجھتی نہیں۔ ان کا وجود کسی پرانے چراغ کی مانند ہے جو ابھی بھی ہلکی سی روشنی دیتا رہتا ہے۔ لوگ ان کی بات پر واہ تو کہتے ہیں، مگر جب عمل کی بات آئے تو جواب دیتے ہیں’’بھائی، وقت نہیں آیاجب یہ تینوں اکٹھے ہوتے ہیں تو منظر مکمل ہو جاتا ہے‘‘۔
اُچے پیسہ ڈالتے ہیں، لُچے شور مچاتے ہیں، اور سُچے خاموشی سے قربانی دیتے ہیں۔ لیڈر بیچ میں کھڑا ہاتھ ہلاتا ہے اور کہتا ہے ’’یہ سب میری ٹیم ہے!‘‘اُچوں سے فنڈ آتا ہے، لُچوں سے جلوس نکلتا ہے، اور سُچوں سے استعفیٰ لیا جاتا ہے تاکہ پارٹی کی شفافیت ثابت ہو۔ یہ کھیل ہر الیکشن میں دہراتا ہے۔ پارٹی کے جھنڈے بدل جاتے ہیں، رنگ سبز سے سرخ اور سرخ سے نیلے ہو جاتے ہیں، مگر تسبیح کے دانے وہی رہتے ہیں۔جب عوام سوال کرتی ہے تو اُچے کہتے ہیں’’ہم نے پیسہ دیا، احسان کیا!‘‘۔ لُچے چیختے ہیں’’تم غدار ہو، سوال مت کرو!‘‘ اور سُچے؟ وہ دفتر کے باہر اپنی فائل تھامے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ شاید کوئی ان سے بھی رائے مانگے۔یہی ہے سیاست کی تسبیح کا ورد۔ اگر کوئی لیڈر بننا چاہے تو دو اُچے، دو لُچے اور دو سُچے ساتھ رکھ لے۔ جلسے میں نعرہ لگائے ’’بدل دو نظام!‘‘ عوام تالیاں بجائے گی، میڈیا خبر چلائے گا، اور ملک اگلے پانچ سال پھر اسی پرانے وعدے کا انتظار کرے گا، جو ہر انتخاب میں نیا لباس پہن کر سامنے آتا ہے۔یاد رکھو، سیاست محض تسبیح کا کھیل ہے،مگر دانے ہمیشہ یہی تین رہتے ہیں:اُچے، لُچے اور سُچے۔