حال و احوال
رشید پر وینؔ سوپور
جموں و کشمیر میں سرکاری سکولوں کا بجٹ 11ہزار کروڑ ہے ، ان سکولوں میں تعنیات اساتذہ کوالیفائیڈضرور ہیں لیکن اپنے فرائض کی انجام دہی میں سنجیدہ نہیں ، آخر یہ مسئلہ کیا ہے اور اگرمسئلہ ہے تو حل کیا ہے؟۔ جولائی سالِ رواں میں چیف سیکریٹری اتل ڈولو نے جموں و کشمیر کے سرکاری سکولوں کا جائزہ لیا ، جہاں کچھ ایسے حقائق سامنے آئے جو انتہائی المناک اور اندوہناک ہونے کے ساتھ ساتھ مایوس کُن اور شرمناک بھی ہیں۔ جموں و کشمیر میں24ہزار سے زیادہ سکول ہیں ، جن میں18ہزارسے زیادہ سرکاری ادارے ہیں اور ان مدارس میں13لاکھ سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ تعلیمی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ نجی تعلیمی ادارے بہت آگے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ سرکاری سکولوں کا ڈراپ آوٹ بہت زیادہ ہے ، بلکہ شمالی ہندوستان میںاس لحاظ سے جموں و کشمیر تیسرے نمبر پر ہے۔ یاتو بچے سکول کو ہی خیر باد کہتے ہیں یا نجی تعلیمی اداروں میں اندراج کراتے ہیں۔ ہمارے مدارسِ کی تعداد میں 119سکول ایسے ہیں جہاں بچوں کا اندراج صفر ہے ، یعنی کوئی بچہ ہی نہیں۔ لیکن ایسے سکولوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے اور ان سکولوں میں اساتذہ کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق238ہے ، کس لئے اور کیوں ؟848سکولوںمیں کوئی نیا اندراج نہیں ، اور ان تمام سکولوں کا بجٹ 11ہزار کروڑ ہے ، چیف سیکریٹری نے اپنے بیان میں کہا کہ ۱۱ ہزار کروڑ کے بجٹ کے مطابق تعلیمی نتائج بھی یقینی بنانے ہوں گے ، لیکن کیسے ، اس کی کوئی وضاحت نہیں ۔ سرکاری سکولوں میں انفرا سٹرکچر کا فقدان نہیں ، اساتذہ کی کمی نہیں اور وہ بھی کوالیفائڈ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ،نجی اداروں کے اساتذہ ان سے بہت کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں ، لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام مکمل ناکام ، نا مراد اور کسی بھی منزل کی طرف گامزن نہیں ۔
( کچھ مستثنیٰ ہوسکتے ہیں ) اصل معاملہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر ان مدارس اور اساتذہ پر اعتماد نہیں ، ان کی کارکردگی اور لگن پر بھروسہ نہیںاور ان سکولوں کی رپوٹیشن بہت اچھی اور قابل احترام نہیں اور اُستاد کی اپنی شبیہہ خلوص پر مبنی نہیں۔کیونکہ اس انحطاط کی سب سے اور اولین وجہ یہ ہے کہ استاد کا اپنے تعلیمی ادراوں پر وشواس نہیں ، جہاں وہ خود بحیثیت استاد کے تعینات ہے ، نہ اپنے آپ پر بھروسہ اور نہ دوسرے اپنے ہم پیشہ اساتذہ کی قابلیتوں پر اعتماد ، اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنے بچوں کے لئے دوسرے اور نجی تعلیمی اداروں کا انتخاب کبھی نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تعلیمی دیویاں اور دیو تا عالیشان عمارتوں ہی میں مقیم نہیں بلکہ ان کا ٹھکانہ محض ایک استاد کے اپنے من مندر میں ہوتا ہے اور اس پراسیس کا روح رواں اور نیو کلیس وہ خود ہے ، بڑی بڑی عالیشان ، فائیو سٹار ہوٹلوں جیسی سہولیات اور ہزار ہا قسم کے چونچلے جو نجی اداروں کا خاصا ہیں،انسان کی عمارت سازی میں کوئی مقام نہیں رکھتی ۔ کبھی نجی تعلیمی اداروں کی چمک دمک والدین کے لئے کریز اور طلبا کے لئے احساس برتری کی علامت تھی لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں ۔بلکہ نجی تعلیمی ادارے ہمارے سماج کے لئے اس لئے ناگزیر ہوچکے ہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا جنازہ بہت پہلے خود سرکاری اساتذہ اور سرکار کی غلط پالیسیوں نے مل کر نکالا ہے، اس لئے اب یہ کوئی کریز نہیں بلکہ انتہائی اہم مجبوری اور ضرورت ہے، جس کے لئے غریب عوام کو اپنی رگوں سے لہو کے ایک ایک قطرے کو نچوڈ کر ان تعلیمی اداروں کے فربہ اجسام میں منتقل کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ والدین سب کچھ سہہ سکتے ہیں لیکن بچوں کی تعلیم سے کسی طرح غافل نہیں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی سمجھوتہ ہی کر سکتے ہیں ۔
یہ بات نجی تعلیمی اداروں کے مالکاں بڑی خوبی سے سمجھ رہے ہیں اور اسی اہم بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ادارے اب تعلیمی ادارے کم اور بلیک میلنگ کے وسیع مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں جو اپنی من مانیوں اور والدین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے میں تمام اعلیٰ اور تعلیمی اقدار کو بھی گہری زمینوں میں دفناچکے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیا کئے ہوئے ہے، جو عجیب لگتی ہے (سوال ہے اور نہ کوئی جواب ہے ) ؟ والدین کی لاچاری ،بے کسی اور مجبوری کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ یوں بھی سال بھر اُن ہی مالکاں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں اور تمام غیر ضروری اور لایعنی تعلیمی چونچلوں کو برداشت کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ سرکاری مدارسِ کی حالت زار اس کے لئے سوہانِ روح اور عذاب سے کم نہیں ۔ اکژو بیشتر یہ ادارے سرکاری احکامات کی بھی پروا نہیں کرتے اور نئی نئی راہیں نکال کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں یا اِن کی جڑیں اتنی مضبوط اور مر بوط ہیں کہ ان کے آگے باقی سب فیصلے خس و خاشاک کی صورت اختیار کرتے ہیں ۔کبھی تعلیمی ادارے دانش گاہیں کہلاتی تھیں، یہ دانش گاہیں قوم کے مستقبل کی ضمانت ہوا کرتی تھیں اور ان ہی چار دیواریوں کے اندر سے اُجالوں کی وہ کرنیں باہر آیا کرتی تھیں جو تابناک مستقبل کی امین اور نقیب بنتی تھیں، یہی دانش گاہیں سائنس ،حساب ، آسٹرانومی، ادب، آرٹ غرض سبھی شعبوں میں اپنے شاگردوں کو درجۂ کمال تک پہنچاتی تھیں ۔ انگریزوں نے بھی بھارت میں ایک نظام تعلیم جاری کیا تھا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اسی تعلیمی نظام سے بھارت اور کشمیر کے عظیم سائنس داں،قد آور شخصیات ،ڈاکٹرس ،انجینئرس اور دوسرے سائنسی شعبوں اور آرٹ وفن سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ستاروں نے جنم لیا اور آج تک ضو فشاں ہیں ۔آزادی کے بعد ایجوکیشن کو نئی لائنوں اور نئے زمانے کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے اب تک سینکڑوں تجربات کئے جا چکے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں، لیکن زمینی سطح پر تعلیمی معیار ہر تجربے اور ہر نئے تعلیمی طریق سے پھسلتا جا رہا ہے۔ وہ ٹوٹے پھوٹے کمرے،وہ ٹپکتی ہوئی چھتیں ،وہ خستہ چار دیواریاں ،وہ معمولی سے ٹاٹ جس پر بچے اپنی معمولی وردیوں میں بیٹھ کر اپنے ؑعظیم اور شاندار اساتذہ سے درس لے کر زندگی کے ہر شعبے میں کتنی ہی منزلیں طے کرتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ آدمیت کے درجے سے اوپر اُٹھ کر انسانیت کے منصب پر فایز ہوجاتے تھےاور یہی آدمیت کی معراج ہوتی ہے کہ بچہ ہر لحاظ سے ایک بہتر شہری اور فرض شناس انسان میں ڈھل جائے۔بے شک آج ایسے ماحول کا تصور جہالت اور بیوقوفی ہی تصور ہوگا مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ اب نئے بڑے بڑے سکولوں کی چمکتی ،چکا چوند کر نے والی روشنی ہمارے مستقبل کو کیا دے رہی ہے؟ ایک سروے
کے مطابق سو بچوں میں صرف بیس فیصد بچے بری عادات سے بچ پاتے ہیں اور آگے اپنے لئے کہیں جاب بنانے کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے پھلنے پھولنے کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ نے پیدا کی اور وہ وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں سے اٹھاکر پرائیویٹ سکولوں کی نذر کیا ۔ یہ سیدھے سادھے الفاظ میں اساتذہ کا سرنڈر تھا اور اس بات کا واضح اعلان تھا ’’کہ ہمارے اپنے ادارے جہاں ہم خود روٹی روزی بھی کماتے ہیں، اب کسی کام کے نہیں رہے اور اس لئے ہم واضح کردیتے ہیں کہ تعلیم صرف نجی اداروں کی لونڈی ہے او ر یہ لونڈی وہاں ہی مسند نشین ہے۔ ‘‘اس احساس نے چھوٹے بڑے ،مزدور ،تانگہ بان ،ڈرائیور، چھوٹے چھوٹے لوگوں کو جو بڑی مشکل سے ہی دو وقت کی روٹی کما پاتے ہیں، اس بات کا اعتبار دلادیا کہ ان کے بچوں کا مستقبل نجی اداروں میں محفوظ ہے اور تمام تعلیمی’’ نا خدا‘‘بھی یہاں ہی براجمان ہیں ۔ والدین تین سال تک اس مستی میں ہی گذارتے ہیں کہ ان کے بچے (ٹونکل ٹونکل لٹل سٹا ر اور یس پاپا بھی رَٹتے ہیں ) تین سال میں رقم کثیر خرچ کرکے یہی دو انگریزی نظمیں انہیں یقین دلاتی ہیں کہ ان کے بچے اب انگریزوں کو نگلنے کے بہت قریب ہیں ،بہرحال ان اداروں نے بھی وقت اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سکولوں کو بزنس سنٹروں میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڈی ۔
وردی سے لیکر پنسل تک ہر چیز پر اپنی برانڈ کا ٹھپہ لگاکر اپنی ہی دکانوں پر بیچنے لگے ، بزنس سنٹروں تک بھی یہ سکول قابل برداشت کہے جا سکتے ہیں ، لیکن اب ان اداروں میں کوئی اخلاقی تصور ، کوئی تعلیمی اور انسانی قدر باقی نہیں رہی ہے ۔ ان اداروں کی جگمگاتی عمارات ، چمکتی روشنیوں ، اونچی اونچی دیواروں اور فرنشڈ کلاس روموں میں یہ سب کچھ تو ہے لیکن اصل میں ’’انسانیت سازی ‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔استاد اپنے بچوں کو سر کاری سکولوں سے اٹھاکر نجی اداروں میں ڈالے اور دوسری طرف اس کوشش میں رہے کہ اسکے سرکاری سکول کا رول بڑھ جائے۔ لوگ ان سرکاری اداروں پر اعتماد رکھیں جہاں وہ استادبھی ہے اور جہاں سے اس کی روٹی روزی چلتی ہے ،لیکن خود انہیں حقیر اورمحض چار دیواروں کے کھوکھلے ڈھانچے سمجھتا ہو، کیسے لوگ اپنے بچوں کو ان دیواروں کے اندر مقید کرنا گوارا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ بڑی بڑی تنخواہوں کے باوجود وہ مستقبل کی امانت کو کسی بھی طرح سنوارنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ عوام اس کے پڑھانے اور اسکے اچھا اُستاد ہونے اور اس کے تعلیمی ادارے پر کس طرح یقین کریں گے اور کیسے اس کے بارے میں اچھا گماں رکھ سکتے ہیں ؟ یہی اصل بات ہے جس نے سرکاری تعلیمی اداروں پر سوالیہ نشان لگا کرنجی تعلیمی مافیا کو جنم دینے میں اہم رول اداکیا ۔ان سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار قلیل اور مختصر سے وقت میں بدل سکتا ہے اگر یہ قانون بن جائے کہ تمام سرکاری ملازمین اور خصوصاً اساتذہ کے بچوں کا اندراج لازماً سر کاری سکولوں میں ہی ہونا چاہئے ، حالات معجزے کی صورت بدل سکتے ہیں ۔
[email protected]